ہمارا مسئلہ جہالت نہیں غیر منافع بخش علم ہے

رفیع صحرائی
جتنا زور اسلام نے علم حاصل کرنے پر دیا ہے دوسرے کسی مذہب نے اس قدر زور نہیں دیا۔
’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان ( مرد و عورت) پر فرض ہے‘‘ ( سنن ابنِ ماجہ)
مردوں کے ساتھ ساتھ عورت پر علم کا حصول فرض کر دیا گیا۔ آپ اسلام کی پہلی جنگ ’’ معرکہ بدر‘‘ ہی کو دیکھ لیجئے۔ مسلمانوں نے جن کفار کو جنگی قیدی بنا لیا تھا ان کی رہائی کے لیے رقم مخصوص کر دی گئی تھی لیکن جو قیدی پڑھے لکھے تھے ان کی رہائی کے لیے رقم کی ادائیگی کی بجائے یہ رعایت دی گئی کہ جو قیدی دس مسلمان بچوں کو خواندہ بنا دے گا اسے رہا کر دیا جائے گا۔ ان غیر مسلم قیدیوں نے بچوں کو دین کی تعلیم نہیں دینی تھی بلکہ پڑھنا اور لکھنا سکھانا تھا تاکہ اس کی مدد سے وہ دین کی تعلیم حاصل کر سکیں۔
علما ء کے نزدیک اس حدیثِ پاک کے مطابق جو علم سیکھنا فرض ہیں وہ اس طرح ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے سب سے پہلے اور ضروری فرض یہ ہے کہ بنیادی عقائد کا علم حاصل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ مسلمان بنتا ہے اور جن کے انکار و مخالَفَت سے کافِر یا گُمراہ ہو جاتا ہے۔
اِس کے بعد طہارت یعنی پاکیزگی اور صفائی کا علم حاصل کرے اور ساتھ ہی ناپاک چیزوں کے بارے میں اور اُن سے پاکیزگی حاصل کرنے کے بارے میں جانکاری حاصل کرے۔
نَماز کے مسائل یعنی اِس کے فرائض و شرائط و مُفسِدات ( یعنی نماز توڑنے والی چیزیں) سیکھے تاکہ نَماز صحیح طور پر ادا کر سکے۔
رَمَضانُ الْمبارَک کے روزوں کے مسائل۔
زکوٰۃ کے مسائل سیکھنا تاکہ مالِکِ نصابِ ہونے پر زکوٰۃ سہی طرح ادا کر سکے۔
صاحِبِ اِستِطاعت ہو تو حج کے مسائل۔
نِکاح کرنا چاہے تو اِس کے ضَروری مسائل۔
تاجِر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل۔
( کاشتکار و زمیندار) کھیتی باڑی کے مسائل۔
ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے پر ملازمت سے متعلق مسائل۔
ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے۔
ہر ایک کے لئے حلال و حرام مسائل بھی سیکھنا فرض ہے۔
دل میں رہنے والے پوشیدہ فرائض کا عِلم مثلا ً عاجِزی، اِخلاص اور توکُّل وغیرہ اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ۔ پوشیدہ گناہ مثلا ً تکبُّر، رِیاکاری، حَسَد وغیرہ اور ان کا عِلاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔
بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا تھا:
علموں بس کریں او یار
اِکّو الف تیرے درکار
آج سے تین دہائیاں پہلے تعلیم لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں ہوتی تھی۔ صرف ضرورت کے مطابق علم حاصل کیا جاتا تھا۔ ضروری مسائل سے جانکاری حاصل کر کے فرائض کی بجا آوری احسن طریقے سے انجام دی جاتی تھی۔ دین کا علم علماء کرام دینی درس گاہوں سے حاصل کرتے تھے۔ ( اب بھی کرتے ہیں)۔ آٹھ سے بارہ سال تک پڑھائی کا سلسلہ جاری رہتا تب جا کر دستارِ فضیلت عطا ہوتی تھی۔ وہ لوگ عالم بن کر نکلتے تھے اور مساجد و مدارس میں علم کا نور پھیلانے میں مگن ہو جاتے۔
پھر ہم نے ترقی کر لی۔ ترقی کرتے کرتے اس معراج تک جا پہنچے کہ اب دینی مسائل کے حل کے لیے علماء کرام کے پاس جانے کی بجائے گوگل سے مدد لی جاتی ہے۔ گوگل کوئی عالم نہیں بلکہ معلومات کا ذریعہ ہے چنانچہ گوگل سے آپ علم حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی راہنما استاد کی بجائے دیگر ذرائع سے سیکھا ہوا علم ناقص ہوتا ہے کیونکہ یہ محض معلومات ہوتی ہیں علم نہیں ہوتا۔ مگر ہم جلد باز لوگ کسی عالم کے پاس جانے کی بجائے گوگل، فیس بک، واٹس اپ، حتیٰ کہ ٹک ٹاک کو اپنا استاد بنا بیٹھے ہیں اور ہر قسم کی غیر صحت مند معلومات کو مستند سمجھ کر نہ صرف خود کو عالم سمجھنا شروع کر دیا ہے بلکہ ان معلومات کو آگے پھیلانے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
حالات کے بگاڑ میں مختلف مسالک اور ان کے انتہا پسند علمائے کرام کی تقاریر و کتب نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جن کی اندھا دھند تقلید سے جہاں نفرتوں نے جنم لیا وہاں عبادات میں بھی اخلاص نہ رہا۔ خضوع و خشوع کی جگہ محض خانہ پُری نے لے لی۔
آپ عشاء کی سترہ رکعتیں پڑھتے تھے پھر علم حاصل کیا تو نو رکعتیں پڑھنے لگ گئے، آپ سادہ سے بندے تھے، سالوں سے عصر کی آٹھ رکعیتں پڑھتے تھے، کچھ پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگ گئے تو انہوں نے بتایا کہ عصر کی چار رکعتیں تو سنت ہیں چار فرض ہیں۔
آپ کو پتہ چلا کہ سنت ( غیر موکدہ) ہیں، آپ نے پڑھنا چھوڑ دیں۔ جب آپ کو پتہ چلا کہ سنت ہیں اور آپ نے پڑھنا چھوڑ دیا تو بتائیں سنت کو اہمیت دی یا اسے غیر اہم سمجھا؟
آپ زندگی بھر رمضان کی قدر کرتے تھے، دن روزوں سے گزارتے اور آپ کی راتیں تراویح سے مزین ہوتی تھیں، پھر کسی دن کسی عالم سے سن لیا کہ تراویح تو ایک زائد عبادت ہے۔ تیس سال پڑھنے کے بعد غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ بیٹھے تو یاد رکھئے یہ نفع بخش علم نہیں نقصان دہ علم ہے۔ یہ خدا کی بندگی نہیں، بندگی سے فرار ہے جس کو آپ علم سمجھتے ہیں۔
آج کل کا مسئلہ جہالت نہیں بلکہ بڑا مسئلہ علم ہے۔ آج کی جہالت پتہ نہ ہونے سے نہیں بلکہ دور جدید کی جہالت پتہ ہونا ہے۔ لوگ اس وجہ سے گمراہ نہیں ہورہے کہ انہیں پتہ نہیں بلکہ اس وجہ سے گمراہ ہورہے ہیں کہ انہیں پتہ ہے۔ اور ایسا علم جو خدا کو بندے سے دور کر دے تو وہ مفید علم نہیں بلکہ مضر ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے علم سے بچائے جو خود کو خدا سے دور کر دے۔ آمین یا رب العالمین۔





