بارہ مصالحے تیرھویں دال

رفیع صحرائی
آپ نے اکثر چل پھر کر چیزیں بیچنے والے پھیری والوں کو دیکھا ہو گا کہ گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنے سودے کی تعریفیں بڑے نرالے ڈھنگ میں کرتے ہیں۔ کوئی اپنی قلفی کو برفی سے تشبیہہ دے رہا ہوتا ہے تو کسی کو اپنی سٹرابری خون کا خزانہ نظر آتی ہے۔ کوئی اپنے پاپڑ کرارے مرغ سے ہم پلہ قرار دیتا ہے تو کسی کو ریڑھی پر سجے ہوئے اپنے کیلے ڈانگ ( چھ فٹ کی لاٹھی) جتنے لمبے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح چنے بیچنے والے آواز لگاتے ہیں ’’ دیکھنے میں چنے، کھانے میں مرغ‘‘۔ ہمارے ہاں چل پھر کر ایک آدمی کراری دال بیچا کرتا تھا جو آواز لگاتا تھا۔ ’’ کراری دال لے لو، بارہ مصالحے تیرھویں دال‘‘۔ بارہ مصالحے تیرھویں دال سے اس کی مراد یہ ہوتی تھی کہ اس نے اپنی دال کو بارہ چٹخارے دار مصالحوں کی آمیزش سے لذیذ اور ذائقہ دار بنایا ہے۔ عام دال اور مصالحوں والی دال میں فرق ذائقے کا ہی ہوتا ہے۔ مصالحوں کی آمیزش سے دال کو خوش ذائقہ بنا کر زیادہ منافع کمایا جاتا ہے۔ یہ کھانے والوں کو زیادہ مرغوب ہوتی ہے۔
مجھے بارہ مصالحوں والی دال اس لیے یاد آئی کہ ملکی سطح پر اب سیاست میں یہی صورتِ حال سامنے آ رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو بارہ مصالحوں کا تڑکا لگا کر لذیذ، خوش ذائقہ اور مرغوب بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں پنجاب کی سطح تک مسلم لیگ ن کافی عرصہ سے مقبول ترین سیاسی جماعت چلی آ رہی ہے۔ یہ پنجاب میں زیادہ تر سولو اڑان ہی بھرتی رہی ہے۔ پنجاب میں کسی پارٹی یا گروپ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی نوبت بہت کم آئی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں جب پی ٹی آئی کی تیز آندھی چلی تھی اور اس نے سب کچھ اڑا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت بھی مسلم لیگ ن پنجاب میں سب سے بڑی جماعت کے روپ میں سامنے آئی تھی۔ مگر پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کے اقتدار نے اس جماعت کی مقبولیت کو شدید متاثر کیا ہے۔ میاں شہباز شریف شدید مہنگائی سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئے تھے مگر عوام کو ریلیف دینے کے بجائے انہوں نے مزید مہنگائی کے گرداب کے حوالے کر دیا۔ ان کے اتحادی جنابِ زرداری زیادہ معاملہ فہم اور زیرک نکلے۔ انہوں نے اقتدار میں اپنا پورا حصہ وصول کیا۔ اہم وزارتیں حاصل کیں مگر حکومت کی کسی ناکامی میں حصے داری کو قبول نہیں کیا۔ نگران حکومت نے عوام کے جسموں سے لباس نوچنے کے بعد کھال تک اتار لی ہے۔ لوگ نگرانوں کو پی ڈی ایم کا تسلسل قرار دے کر سارا غصہ ن لیگ پر اتار رہے ہیں۔ عمران خان حکومت جانے سے پہلے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے۔ مہنگائی نے اس حد تک عوام کو متاثر کر دیا تھا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز نے بھی اپنی حکومت کا دفاع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگر عمران خان اپنا ٹینیور پورا کر جاتے تو شاید آئندہ کے لیے زندگی بھر اقتدار میں نہ آ پاتے۔ جناب آصف زرداری اور میاں شہباز شریف اس موقع پر ٹریپ میں آ گئے اور میاں نواز شریف کو قائل کر کے عمران خان کو اقتدار سے باہر کر کے انہیں ایک مرتبہ پھر ہیرو بنا دیا۔ اقتدار کی یہ تبدیلی عوام کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنی آئندہ نسل کو حکمران بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھی۔ اسی لیے جانتے بوجھتے سولہ ماہ کے لیے کانٹوں کا ہار گلے میں ڈال لیا گیا کہ انہیں یقین دلایا گیا تھا عمران خان اگلا انتخاب جیتنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔
میاں شہباز شریف کی سولہ ماہ کی وزارتِ عظمیٰ ن لیگ کے گلے پڑ چکی ہے۔ میاں نواز شریف کی ماضی کی کامیابیوں کو اس مختصر اقتدار نے گہنا دیا ہے۔ تنہا پرواز بھرنے والی ن لیگ اب ہاٹ کیک یا کراری دال نہیں رہی۔ اب اسے عوام کی توجہ اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بارہ مصالحوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ق لیگ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، باپ پارٹی، استحکامِ پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی کے تڑکے کے باوجود یہ دال حسبِ دل خواہ پذیرائی سے محروم ہے۔ ذائقہ بڑھانے کے لیے مزید مصالحے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ صورتِ حال مسلم لیگ ن کے لیے حوصلہ افزا نہیں ہے۔ میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت کے خواہاں ہیں۔ یہ ساری منصوبہ بندی اسی لیے کی جا رہی ہے۔ مگر دو تہائی اکثریت مل بھی گئی تو میاں نواز شریف مضبوط وزیرِ اعظم نہیں بن پائیں گے۔ یہ مصالحے انہیں لذت سے محروم کرنے کی دھمکی دے کر قدم قدم پر بلیک میل کریں گے۔ انہیں ہر قدم پر مفاہمت کرنا پڑے گی۔ وہ حسبِ منشا کام نہیں کر پائیں گے۔ یہ چیز ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کی چھتری کے نیچے وہ خود کو ایڈجسٹ کر پائیں گے یا نہیں۔؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال بارہ مصالحوں کے تڑکوں سے ان کی دال کو خوب مرغوب بنایا جا رہا ہے۔ مخالف دکاندار کی دال تو ویسے بھی بارش میں بھیگ کر مصالحوں اور ذائقے سے کافی حد تک محروم ہو چکی ہے۔





