Column

تعلیم اوراسٹیج

ڈاکٹر سید اے وحید
تعلیم و تدریس دنیا بھر میں ایک مقدس ذمہ داری اور اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک باعزت پیشہ بھی ہے اور بعض ثقافتوں میں اسے عبادت کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ تعلیمی عمل کا تعلق بالآخر مثبت معاشرتی تغیر اور رویوں کے ارتقا ء سے ہے۔ تاہم بدقسمتی سے تعلیمی عمل کے نتیجے میں معکوس ترقی بھی ہوتی ہے اورمنفی معاشرتی تبدیلی اور منفی رویوں کے ارتقا ء کا عمل بھی ممکن ہوتا ہے۔چنانچہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تعلیم وتدریس ایک ایسا مظہر ہے جس کے اثرات اور نتائج پوشیدہ نہیں رہ سکتے اور اکثر صورتوں میں اس کے مثبت اثرات کو خفیہ رکھنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں کئی تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں اور اس کی نوعیت، شدت اور سمت دنیا کے مختلف ممالک میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان میں مختلف تعلیمی سطحوں پر کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں جن میں سے ایک اہم تبدیلی مختلف تعلیمی سرگرمیوں کی نمود و نمائش ہے جو ایک خاص حد تک جائز اور مناسب سمجھی جاتی ہے لیکن اگر یہ متجاوز کر جائے تو زیب نہیں دیتی۔ یوں تو پاکستان میں اس عمل کا اظہار ہر سطح تعلیم پر دیکھنے میں آیا ہے لیکن اعلیٰ تعلم میں اس کی شدت کہیں زیادہ ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات میں اساتذہ کی ترقی کا دارومدار سلیکشن کے عمل سے ہے نا کہ پروموشن سے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں نفسانفسی کا عالم ہے۔ اکھاڑ پچھاڑ ہے۔ بے چینی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مصروفِ کار ہے جس کے نتیجے میں کئی انسانی قدروں کی پامالی بھی ہوتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ نمود و نمائش کا یہ مظہر پسِ پردہ بھی ہے اور پیشِ پردہ یعنی سٹیج پر بھی۔
یوں تو تعلیم اور اسٹیج کا آپس میں کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ تاہم پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اب اس کا چولی دامن کا ساتھ بن گیا ہے۔ اس عمل کے بہرحال بعض مثبت پہلو بھی ہیں۔ جیسے اساتذہ کے درمیان اور طلباء کا آپس میں ایک مسابقتی رجحان پروان چڑھتا ہے جس سے بالخصوص طلباء میں آگے بڑھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور وہ ’’ اسٹیج‘‘ کے اس عمل سے بہت سی باتیں سیکھتے ہیں جو مستقبل میں ان کے کام بھی آتی ہیں۔ طلبا میں تحریر، تخلیق اور ابلاغ کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور ان میں کئی انتظامی صلاحیتیں جنم لیتی ہیں۔ اسی طرح طلبا باہمی تفاعل کے عمل سے گزرتے ہیں اور جہاں وہ اپنی کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں وہاں وہ دوسروں سے سیکھتے بھی ہیں۔ اور اس طرح ان کی زندگی میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے اور یوں زندگی رواں دواں ہوتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح اساتذہ کِرام میں بھی کم و بیش اسی طرح کے جذبات و خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کے انعقاد میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے جس کے مثبت اثرات طلباء کی تحریری، تخلیقی، تبلیغی اور انتظامی صلاحیتوں پر بھی پڑتے ہیں۔
قطع نظر ان خوبیوں کے تعلیمی سرگرمیوں کے کثرت کے انعقاد کی وجہ سے کئی منفی پہلو بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ مشاہدہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات تو ان سرگرمیوں کا مقصد بظاہر تصویر سازی اور محض نمود و نمائش ہوتا ہے۔ جس کا انجام اور منتہائے مقصود ایک فوٹو سیشن کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح کی سرگرمیاں طلبا کے لیے بہرحال مثبت قدم ثابت ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف اس کے مقاصد اور ہوتے ہیں۔ اس عمل کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے اعلیٰ تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات اپنے اولین فریضہ سے منحرف ہوتی نظر آتی ہیں۔ جامعات کی اولین ذمہ داری طلبا کی تجزیاتی سوچ کو ابھارنا اور پروان چڑھانا ہی نہیں بلکہ تحقیق کی ترویج و اشاعت ہے اور اس کے ذریعے معاشرے میں ترقی کے عمل کو تیز تر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صنعت کے باہمی ربط کو مضبوط کرنا بھی ہے اور اکثر و بیشتر یہ عمل اسٹیج سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ کتب خانوں، لیبارٹریز، اور تحقیق گاہوں کے متحرک کردار سے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات میں کتب خانوں کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے اور بالخصوص نئی جامعات میں شعبہ جاتی کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور طلبا میں کتب بینی کی عادات کو پختہ کیا جائے۔
اسی طرح سائنس کے مختلف شعبوں میں جدید لیبارٹریز قائم کی جائیں۔ یہ کئی طرح سے ممکن ہے۔
اس کے لیے اساتذہ کرام اپنے مخصوص شعبوں میں اندرونِ اور بیرونِ ملک فنڈنگ ایجنسیوں سے پراجیکٹ حاصل کریں اور اپنے مخصوص شعبوں کی ترقی کے لیے لیبارٹریز اور متعلقہ سازوسامان خرید کر طلباء کو تجربات کے لیے ترغیب دیں اور ان میں تحقیق و تجسس کیلیے آمادگی پیدا کریں۔ تحقیق جامعات کا خاصہ ہے۔ طبعی سائنس اور معاشرتی سائنس کی ترویج و ترقی کیلیے تحقیقی عمل کو فروغ دینا از حد ضروری ہے۔ آج کے دور میں معاشرتی تحقیق اور ترقی بھی اتنی ہے ضروری ہے جتنی مادی ترقی اور تحقیق۔ دیکھا جائے تو پاکستان جیسے قدامت پسند معاشری کے لیے توہمات، تعصب، نفرت اور دقیانوسی روایات اور رسوم سے نجات پانے کیلیے معاشرتی تحقیق اور اس کے نتیجے میں ترقی اور بھی لازم و ملزوم ہے۔
چنانچہ حقیقی معنوں میں ملکی ترقی اور معاشرتی سدھار کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کو فوٹو اور اسٹیج سے ماورا ہو کر اسٹیج کے پیچھے بھی کام کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے اور اس کے لیے کتب خانوں کو آباد کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔لیبارٹریز کی تجدید کاری اور تحقیق گاہوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button