Column

مولانا جلال الدین رومی

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
تاریخ اسلام کی وہ عظیم شخصیات جنہوں نے علم و فضل اور زہدو تقوی میں کمال حاصل کیا اورامتِ مسلمہ کے لیے مفید عملی اورروحانی خدمات سر انجام دیں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کی خدمات یاد رکھی جاتی ہیں اور ان کے علمی نوادارت سے آج بھی لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ انہی شخصیات میں ایک نام مولاناجلال الدین رومی کا بھی ہے جو ساتویں صدی ہجری کے آغاز میں پیدا ہوئے ۔ علومِ دینیہ اور تصوف میں نام کمایا ۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ شغف رہا اور گزشتہ سات صدیوں سے امتِ مسلمہ آپ کے علمی فیوض سے مستفیض ہو رہی ہے ۔ مولانا جلال الدین رومی کا اصل نام محمد بن محمد بن حسین بلخی ہے۔ جلال الدین آپ کا لقب ہے اورآپ مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ6ربیع الاول604ھ ، 30ستمبر 1207ء میں بلخ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا سلسہِ نسب حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد کا لقب شیخ بہائو الدین تھا جو بڑے صاحبِ علم و فضل بزرگ تھے ۔یہ دور محمد خوارزم شاہ کاتھاجو کہ خود اور مولانا فخر الدین رازی بھی شیخ بہا الدین کے حلقہِ ارادت میں شامل تھے ۔ مولانا رومی نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی سے ہی حاصل کی اور پھر انہوں نے اپنے مرید سید برہان الدین کو آپ کا معلم اوراتالیق مقرر کیا ۔بیشترعلوم آپ نے انہی سے حاصل کیے۔ شیخ بہائو الدین 610ء میں نیشا پور چلے گئے اس وقت مولانا رومی کی عمر صرف چھ برس تھی اور بچپن سے ہی آپ پر سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے۔ نیشا پور میں شیخ بہا الدین کی ملاقات خواجہ فرید الدین عطار سے ہوئی۔ خواجہ صاحب نے جب مولانا رومی کو دیکھا تو شیخ بہائوالدین سے فرمایا’’ اس کی قابلیت سے غافل نہ ہونا ‘‘ اور اپنی مثنوی’’ اسرار نامہ‘‘ مولانا کو پڑھنے کے لیے عنایت کی۔ مولانا رومی کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں گوہر خاتون سے ہوئی جو کہ سمر قند کے ایک با اثر شخص کی بیٹی تھی ۔ اپنے والد کی وفات کے بعد آپ شام چلے گئے ۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین سے علم حاصل کیا ۔ آپ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے لیکن آپ کی شہرت ایک صوفی شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ مولانا روم نے ساتویں صدی کے تصوف کے ماحول میں آنکھ کھولی۔ سلوک منازل طے کیں۔مشہور مشائخ کی صحبتوں میں شریک ہوئے۔ اُن میں سے ظاہری وباطنی فیوض حاصل کیے اور آخر میں مسندِ ارشاد وتقین کو مجتہدانہ زینت عطا کی۔امامِ فن اور مرشد کلام کی صورت میں مریدوں کی تربیت کی اور مولویہ، جلالیہ صوفیانہ سلسلہ کی بنیاد ڈالی۔ مثنوی، فیہ مافیہ اور دیوانِ شمس تبریزآپ کی مشہور تصانیف ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت مثنوی کو حاصل ہوئی جو مثنوی مولانا روم کے نام سے مشہور ہے اور یہی کتاب آپ کی وجہِ شہرت بنی ۔ فیہ ما فیہ مولانا کی فارسی نثر میں لکھی ہوئی کتاب ہے جو 72مقالات پر مشتمل ہے ۔ فارسی ادب میں ساتویں صدی ہجری کی شاہکار کتا ب تصور کی جاتی ہے ۔ اس کتاب کاانگریزی ترجمہ آرتھر جان اربری نے 1961ء میں کیا ۔ دیوانِ شمس تبریز جسے دیوانِ کبیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مولانا رومی کا شعری دیوان ہے جسے مولانا نے اپنے شیخِ کامل شمس تبریز کی عقیدت میں ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مرتب کیا ۔مثنوی آپ کی وہ کتاب ہے جسے قبولِ عام حاصل ہوا۔ علما ، صوفیا، تاریخِ اسلامی سے دلچسپی رکھنے والے محققین اور ادیب اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔مولانا عبد الرحمن جامی نے آپ کی اس کتاب کوانتہائی خوبصورت الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔علامہ اقبالؒ نے مولانارومی اوران کی مثنوی کی جس قدر تعریف کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا روم کو اپنا پیر تسلیم کیا ہے اور ان کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
خیالش با مہ و انجم نشیند نگاہش آں سوئے پرویں ببیند ( اس کا خیال چاند اور ستاروں کا ہم نشیں ہے۔ اس کی نگاہ پروین ستارہ سے بھی آگے دیکھتی ہے)
دلِ بیتابِ خود راپیشِ او نِہ دمِ او رعشہ از سیماب چنید ( اپنے بیتاب دل کو اس کے سامنے پیش کر رومی کا دم پارے سے بیتابی کو چن لیتا ہے)
زرومی گیر اسرارِ فقیری کہ آں فقر است محسودِ امیری ( رومی سے فقیری کے را ز و نیاز سیکھ ۔ اس کے فقر پر امیری رشک کرتی ہے )
حذر زاں فقروردرویشی کہ از وے رسید ی بر مقامِ سر بزیری ( ایسے فقرو درویشی سے پرہیز کر جس سے تو سر جھکانے کے مقام پر جا پہنچے۔ یعنی جس کی وجہ سے تمہیں سر جھکانا پڑے )
خودی تا گشت مہجورِ خدائی بہ فقر آموخت آدابِ گدائی ( خود ی جب خدائی سے جد ا ہو جائے تو فقر سے گدائی کے آداب سیکھ)
زچشمِ مست رومی وام کردم سرورے از مقامِ کبریائی ( میں نے رومی کی مست نگاہوں سے یہ بات حاصل کی ہے کہ کبریائی کے مقام سے سرور حاصل ہوتا ہے)
مولانا رومی نے مثنوی میں و ہ اسرارو رموز اور حقائق بیان کیے ہیں کہ ہر زمانے کے علما نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ آپ نے حکایات و واقعات کے آسان پیرائے میں معارف کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو آسانی سے دل میں اتر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما و صوفیا نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور باقاعدگی سے درسِ مثنوی کا اہتمام کیا ہے ۔ یہ کتاب دل کے اندر سوزو گداز اور تڑپ پیدا کر دیتی ہے ۔ اس کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا رومی نے خود اس کے متعلق فرمایا ہے کہ میں نے اس میں قرآن کا خلاصہ اور نچوڑ بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں ’’ ما ز قرآں مغز را برداشتیم پوست را بہرِ خراں بگذاشتیم ‘‘ ( ہم نے قرآن سے مغز نکال کر پیش کر دیا ہے اور چھلکے کو گدھوں کے لیے چھوڑ دیا ہے )۔
مولانا رومی کا وصال 5جمادی الثانی 672ھ کو قونیہ ( موجودہ ترکیہ) میں ہوا۔ وہیں آپ کا مزار بھی واقع ہے ۔

جواب دیں

Back to top button