اردو ہے جس کا نام

تحریر : ڈاکٹر سید اے وحید
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کئی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی زبان میں مہارتِ تامہ نہیں رکھتے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور انگریزی سرکاری۔ ہر شخص اپنی علاقائی زبان بھی بولتا ہے جو اکثر صورتوں میں اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔ فی الحقیقت انگریزی زبان عملی طور پر اور ایک غیر محسوس طریقے سے قومی زبان کی حیثیت سے مروج ہو چکی ہے۔ اردو زبان کی قومی حیثیت پر نا جانے آج تک کتنے مضامین ، کالم اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن قومی زبان کو آج تک اس کا صحیح مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی نہیں چاہتی کہ اردو زبان کو قومی حیثیت سے فروغ حاصل ہو۔ پاکستان میں مقابلہ جات کے امتحانات انگریزی میں ہوتے ہیں اگرچہ اردو کو بھی میں اختیاری اور لازمی حیثیت دی گئی ہے۔ لیکن یہ خیال عام ہے کہ ان امتحانات میں کامیابی کے لیے انگریزی زبان میں ملکہ حاصل ہونا کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم احساسِ کمتری کے تحت بھی انگریزی زبان سیکھتی ہے اور پھر یہ تاُثر بھی عام ہے کہ انگریزی میں مہارت حاصل کرنے پر نوکری حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے اور باہر جانا اور وہاں ایڈجسٹ ہونا بھی آسان ہوتا ہے۔
سوال پھر وہی ہے جس پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اردو کو کس طرح فروغ دیا جاسکتا ہے تا کہ بقول داغ،سارے جہاں میں اس کی دھوم ہو۔اس کے لیے نصابی، غیرنصابی، لسانی، معاشرتی اور سیا سی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو نصابی یا تعلیمی سطح پر اردو زبان و ادب صرف انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے اور اس کے بعد طلباء اختیاری مضمون کی حیثیت سے اسے انڈر گریجوایٹ کی سطح پر پڑھ سکتے ہیں۔ انڈر گریجوایٹ سطح پر قومی زبان کے ساتھ نا انصافی یہ ہے کہ یہاں انگریزی زبان کے دو سے تین کورس لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جا رہے ہیں جبکہ قومی زبان اردو کا ایک کورس بھی لازمی حیثیت میں نہیں پڑھایا جا رہا ۔ اردو زبان کے فروغ اور ارتقا کے لیے ضروری ہی کہ انڈر گریجوایٹ کی سطح پر اس کا کم از کم ایک کورس ضرور پڑھایا جائے۔ اس سے طلباء میں قو می زبان میں تخلیقی عمل کو جاری رکھنا ممکن ہوگا اور مستقبل میں اس کی بقا اور تحفظ بھی ممکن ہو سکے گا۔
کسی بھی زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے اس میں ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد بہت ضروری ہوتا ہے۔پاکستان میں کئی اداروں کی پہچان اور شہرت اردو اور انگریزی زبان میں منعقد کی جانے والی بے شمار ہم نصابی سر گرمیاں ہیں۔ان میں اداروں میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سرِ فہرست ہے۔ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں یہاں چالیس سے زیادہ اردو زبان و ادب کے مختلف پلیٹ فارمز ہوتے تھے اور کم وبیش ہر طالبِ علم ان سے فیض یاب ہوتا تھا۔جی سی لاہور کے فارغ التحصیل طلباء جہاں بھی جاتے ہیں اپنی ان روایات کے تسلسل کو قائم دائم رکھتے ہیں اور اس طرح اردو زبان کی ترویج جاری و ساری رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں اوکاڑہ کینت میں آفیسرز اور جونیئر آفیسرز کے درمیان اقبالیات کے حوالے سے بیت بازی، مباحثوں اور تحت اللفظ کے مقابلے منعقد ہو ئے جس میں راقم الحروف کو بطور منصف مدعو کیا گیا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہے کہ پاک فوج اپنے جوانوں کے شعری و ادبی ذوق کی تربیت بہت احسن انداز سے کر رہی ہے اور اعلیٰ کمان عمدہ طریقے سے اس کی سرپرستی کر رہی ہے۔
اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے شہر شہر اور قریہ قریہ کتب خانوں کا قیام بہت ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر فروٹ کی دکانوں پر سگریٹ کی ڈبیا مل سکتی ہے تو سگریٹ کی دکانوں پر اردو شاعری اور افسانوں کی کتب دستیاب کیوں نہیں ہو سکتیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم کتب بینی کے مقابلے میں خوش خوراکی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصغر ندیم سید صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک زمانے میں جہاں کتابوں کی دکانیں ہوتی تھیں آج وہاں گوشت کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ چار سالہ قیامِ یورپ کے دوران ہم نے مشاہدہ کیا کہ وہاں کے لوگ کتب بینی کے کس قدر دلدادہ ہیں جس کی تربیت بچپن ہی میں سکول اور فیملی نے کی ہوتی ہے۔وہاں کتب خانے ٹرام ، بس سٹاپ اور گلی کوچوں میں قائم کیے گئے ہیں جہاں سے بچے ، بوڑھے اور نوجوان آتے جاتے کتب حاصل کرتے ہیں اور پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان میں کم از کم یونین کونسل کی سطح پر کتب خانوں کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ اسی طرح سکول اور کالج کے مقفل کتب خانوں کو کھولا جانا چاہیے اور طلباء کو ان سے مستفید ہونے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
قومی سطح پر اردو کو فروغ دینے کے لیے بین العلاقائی اور بین الصوبائی تعصب کو ختم کرنا چاہیے اور اس کے برعکس بھی درست ہے کہ اردو زبان کو فروغ دے کر تعصب کا تدارک کرنا چاہیے۔ اہلِ اردو کا یہ ایک دیرینہ مطالبہ رہاہے کہ قومی زبان کو سرکاری سطح پر بھی رائج کیا جائے لیکن یہ خواب تا حال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کو اس وقت تک فروغ نہیں دیا جا سکتا جب تک اس میں سرکاری خط و کتابت شروع نہیں کی جائے گی اور اس با ت کو ممکن بنانے کیلیے سرکاری سرپرستی، خلوصِ نیت، مصمم ارادہ اور بیرونی مداخلت کو نظر انداز کرنا بہت ضروری ہے۔





