شاباش! محسن نقوی

تحریر : رفیع صحرائی
نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی بلاشبہ ایک انتھک اور محنتی انسان ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’ محنت سر سرداریاں‘‘، تو محسن نقوی بھی عوام کے دلوں کے سردار بنے ہوئے ہیں۔ ان سے پہلے جناب شہباز شریف پنجاب میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے ایک استعارہ بن گئے تھے جبکہ چودھری پرویز الٰہی معاملہ فہمی، عوامی مسائل کے ادراک اور ان کے حل میں ایک مثال کی حیثیت رکھتے تھے۔ محسن نقوی میں ان دونوں کی خوبیاں یکجا ہو گئی ہیں۔ یہ اپنے دئیے گئے منصب کی محدود مدت میں خدمات کے لامحدود اور نہ مٹنے والے نقوش ثبت کرتے جا رہے ہیں۔ چھ ماہ کے تعمیراتی منصوبوں کی دو ماہ میں تکمیل چاہتے ہی نہیں، کرواتے بھی ہیں۔ محسن نقوی انتظامی اور ترقیاتی امور کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ کبھی وہ دوپہر کو لاہور سمیت پورے پنجاب میں کسی ہسپتال کا دورہ کرتے نظر آتے ہیں تو شام کو کسی انڈر پاس، رنگ روڈ یا شاہراہ کی تعمیراتی سائٹ پر کام کو ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی طرف سے کابینہ اور بیوروکریسی کے ساتھ مسلسل میٹنگز کر کے عوامی مفاد کے منصوبہ جات پر بریفنگز اور منظوری کے مراحل طے ہو رہے ہیں۔ وہ 8 فروری سے پہلے پہلے مقدور سے زیادہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
سموگ گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب میں ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ہماری اپنی عاقبت نااندیشیوں کے سبب معکوس ماحول دوستی میں لاہور پہلے نمبر پر آ رہا ہے۔ محسن نقوی پچھلے دو ماہ سے سموگ میں کمی اور خاتمے پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ کبھی ہفتے میں ایک یا دو چھٹیاں دے کر سموگ کا سبب بننے والی ٹریفک میں کمی کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی فیکٹریوں، کارخانوں اور مارکیٹوں کی بندش سے اس عفریت پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لاہور میں اینٹی سموگ ٹاورز کی تنصیب کا منصوبہ بھی پائپ لائن میں ہے۔
16دسمبر کو انہوں نے سموگ میں کمی کے لیے انقلابی قدم اٹھایا جب متحدہ عرب امارات کے تعاون سے لاہور کے دس علاقوں میں مصنوعی بارش برسانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش برسانے کا یہ دنیا بھر میں پہلا تجربہ ہے۔ اس کے لیے جناب محسن نقوی خراجِ تحسین اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وہ بے شمار بیماریوں کا موجب بننے والی سموگ کے تدارک کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو ان کا مفادِ عامہ کا یہ کام پسند نہیں آیا۔ رات ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ وہ الیکشن کرانے آئے ہیں، اپنے اسی کام پر ہی فوکس رکھیں۔ مصنوعی بارش برسانا ان کا کام نہیں ہے۔ ان صاحب کی اس بات کا بڑا دکھ ہوا۔ منتخب حکمران جو کام نہ کر سکے وہ ایک نگران حکمران نے کر دکھایا۔ محض اس وجہ سے تنقید کرنا کہ نگران ہو کر وہ اتنے بڑے منصوبے کیوں مکمل کر رہے ہیں بیمار ذہن کی عکاسی ہے۔ ساری دنیا تو روزی دینے والے رب سے بھی راضی نہیں ہے، محسن نقوی تو پھر ایک انسان ہیں۔ تاہم وہ خدمت اور عوامی بھلائی کے معیارات کا ایسا ٹرینڈ سیٹ کر رہے ہیں کہ آنے والے منتخب حکمران جنہیں آرام طلبی کی عادت ہوتی ہے وہ مشکل میں ضرور پڑ جائیں گے۔ چلتے چلتے ماحول دوستی کے کام اور اس کے اعلیٰ ترین سطح پر اعتراف کا ایک واقعہ پڑھتے جائیے۔
بھارت کی مشہور چائے کمپنی ’’ تاج محل‘‘ نے وجے واڑ نامی شہر میں ایک بڑا بِل بورڈ لگایا ہے جہاں سال بھر بارش ہوتی رہتی ہے۔ اس بِل بورڈ کے ساتھ لکڑی کے بڑے بڑے چمچے لگے ہوئے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو اِن چمچوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے، جس کے وزن سے چمچ جُھک کر بورڈ کے سرکٹ سے ٹکرا جاتے ہیں جس سے راگ ’’میگھ ملہار‘‘ کی کمپوزیشن بن کر اپنے مَدُھر سُر بکھیرنے لگتی ہے۔ واضح رہے کہ راگ میگھ ملہار بارش سے منسوب ہے۔ اِس خُوبصورت ماحول دوست کاوش کا اعتراف کرتے ہوئے ’’ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ نے کمپنی کو تعریفی سرٹیفکیٹ عطا کیا ہے۔ تعریفی سَند میں اِس بِل بورڈز کو دُنیا کا بہترین ’’ ماحول دوست بل بورڈ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ جسے ذوقِ جمالیات نصیب ہو وہ گٹر کے ڈھکن بھی دیدہ زیب دیکھنا چاہتا ہے!
ہمارے ہاں تو ہمیشہ سے ’’دیپک راگ‘‘ گانے والے ہی ہمارے نصیب میں آئے ہیں جو اپنے سُروں سے عوام کے حقوق کو جلا کر بھسم کرتے آئے ہیں۔ ایسے میں جناب محسن نقوی کا چھیڑا ’’میگھ ملہار‘‘ تازہ ہوا کا جھونکا اور بہاروں کی نوید ثابت ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تنقید کرنے والے تو ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنا فرض سمجھتے ہیں۔





