مسئلہ فلسطین کا حل، دو ریاستی نظریہ ہی کیوں ؟

تحریر : یاور عباس
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس پر نیکی کرو اس کے شر سے بچو، یہ قول شاید فلسطینی بھول گئے تھے کہ انہوںنے جنگ عظیم دوم کے بعد ہٹلر کے خوف سے چھپنے والے یہودیوں کو پناہ دی اور پناہ گزین یہودیوںنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا آج دنیا دیکھ رہی ہے، فلسطین کے کچھ حصہ پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ کی حمایت سے ایک آزاد ریاست قائم کرلی اور پھر اس میں تجاوز کرنے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی، امریکہ سمیت بہت سارے مغربی ممالک کی پشت پناہی پر اسرائیل کا وجود مئی 1948ئ کی جنگ کے بعد تسلیم کرلیا لیکن عرب اور اسلامی ممالک نے اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جب تک فلسطینی اپنی آزاد مرضی سے کوئی فیصلہ نہ کر لیں ۔ پھر اسرائیل نے صرف فلسطینیوں کے علاقوں پر ہی قبضہ نہیں کیا بلکہ فلسطینی نہتے عوام پر بھی ظلم و ستم کی اندوہناک داستانیں رقم کیں ۔ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے حیات تنگ کرنا شروع کردی ، یوں تو فلسطینی گزشتہ 75سالوں سے اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں مگر کبھی کبھار یہ جنگ شدت اختیار کر جاتی ہے اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والی حالیہ جنگ کو بھی تین ماہ گزرنے والے ہیں اور حماس اسرائیل جنگ میں لگ بھگ بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں ،اقوام متحدہ جنگ بندی کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے ، دنیا کے امن کے ٹھیکیدار اسرائیل کو جنگ جرائم سے روکنے میں بے بس دکھائی دے رہے ہیں ، اسلامی ممالک صرف مذمتی قراردادوں کی حد تک فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
تین ماہ تک جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہ کرنا تشویش ناک ہے ،دنیا کا امن اس وقت تک ناپید رہے گا جب تک پوری دنیا میں انصاف کی فراہمی یکساں طور پر نہیں کی جاتی ، دنیا نے دیکھا کہ 9؍11کے بعد امریکہ نے افغانستان پر الزام لگا کر کس طرح چڑھائی کی اور 20سال تک افغانیوںکو نہ صرف جنگ میں دھکیل دیا بلکہ منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اورفوجی حملوں کے نتیجے میں لاتعداد افغانیوں کو قتل کردیا گیا ، 20سال بعد جب نتیجہ کچھ نہ نکلا تو امریکہ دم دبا کر بھاگ گیا مگر امریکہ سے گزشتہ 20سالوں میں ہونے والی تباہی کا حساب کون لے گا۔ عراق کو ایٹمی ہتھیار بنانے کے الزام میں صدام حکومت کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ فوجی کارروائی کر کے ایک پرامن ملک یرغمال بناکر وہاں کے عوام پر جنگ مسلط کر دی گئی اور وہاں بھی 20سال گزرنے کے بعد امریکہ کا مکمل کنٹرول ہونے کے باوجود دنیا کو وہ ایٹمی ہتھیار نہیں دکھا سکے جس کا الزام لگا کر انہوںنے عراق پر حملہ کیا ۔ کشمیر میں 75سالوںسے بھارت جو ظلم و ستم کررہا ہے اس پر عالمی دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ، دنیا بھر میں مسلم ریاستوں پر ظلم و ستم کی داستانوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ شاید امریک اور مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف آج بھی صلیبی جنگیں لڑرہے ہیں اور مسلمان ممالک ہیں کہ باہم چھوٹے چھوٹے اختلافات پر دست و گریبان ہیں اور امریکہ و مغربی ممالک کی خوشنودی کے لیی ایک دوسرے کو خلاف استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
سعودی عرب نے چند سال قبل جب 34اسلامی ممالک کی فوج تشکیل دی اور اس کا سپہ سالار پاکستان کے شیر دل جرنیل دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشن کرنے والے جری مجاہد جنرل (ر) راحیل شریف کو مقرر کیا تو اسلامی ممالک کے عوام بڑے خوش تھے کہ اب مسلمانوں کا دفاع مضبوط ہوگا مگر فلسطین پر مسلط جنگ میں اسلامی فوج کی خاموشی نے عوام کو مایوس کیا ، کشمیر پر ہونے والے ظلم و ستم کے بعد بھارت کی جانب سے 6اگست2019ء کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370کو تبدیل کر کے کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم کردی اور اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کی توہین کی جس میں کشمیر کے مسئلہ کا حل کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے دیا گیا تھا مگر عالمی دنیا نے بھارتی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کی ،اسلامی فوج نے بھارت کو اس اقدام سے باز رکھنے کے لیے بھی کوئی پیش قدمی کی نہ ہی کوئی کردار ادا کیا۔ اسلامی دنیا کو متحد ہوکر اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم ہونے اور اقوام متحدہ کو اسلامی دنیا کے تحفظ کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔
حماس اور اسرائیل کی تین ماہ سے جاری جنگ کی صورتحال اب میڈیا کے ذریعے دنیا کے بچے بچے کو آگاہی مل چکی ہے ، بے گناہ فلسطینی شہریوں ، بچوں ، عورتوں اور صحافیوں کو شہید کرنے ، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے جیسے جنگی جرائم پر مغربی ممالک کے عوام نے بھی شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے ، ترکی ،ایران سمیت بہت سارے اسلامی ممالک نے شدید سرکاری سطح پر شدید ردعمل دیا مگراقوام متحدہ نے اسرائیل کے رویے پر افسوس کیا مگر فلسطینی عوام کو تحفظ دینے میں دنیا کی تمام طاقتیں ناکام ہوگئیں اور اب دنیا مسئلہ فلسطین کو دوریاستی حل کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دے رہی ہے ۔ پاکستان کی عسکری قیادت بھی اسی فارمولے کو بہترین سمجھ رہی ہے اور ہمارے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے یہاں تک کہہ دیا کہ فلسطین کے مسئلہ پر قائداعظم کے نظریہ سے اختلاف کفر نہیں ہے ، اگر یہی جملے کسی اپوزیشن رہنما نے کہے تو شاید غداری کے مقدمات درج ہوجاتے اور نظریہ پاکستان کے خلاف بولنے پر ریاستی غضب کا سامنا کرنا پڑتا ، مسئلہ فلسطین دو ریاستی حل سے کبھی حل نہیں ہوسکتا ، کشیدگی برقرار رہے گی اور امن بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔ عالمی برادری مسئلہ فلسطین پر انصاف سے کام لینے سے کیوں گریزاں ہے ، دو ریاستی حل کے ذریعے جنگ بندی کروانے کا مقصد اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اور اسے مزید مضبوط کرنا ہوگا ۔ عالمی طاقتیں اگر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہی ہیں اور اسرائیل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھی اہمیت نہیں دے رہا تو اس کے خلاف نیٹو فوجیں استعمال کی جائیں اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے ، فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی کروائے جائیں، اسلامی ممالک کو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے امریکی اور مغربی ممالک کی تجاویز کی بجائے فلسطینی عوام اور حماس کی قیادت کی تجاویز کی حمایت کرنی چاہیے ۔





