تازہ ترینخبریںسیاسیات

اللہ کی عدالت میں پیشی: جب جج ارشد ملک نے گھبرا کر نوازشریف کوبیان سے روکا

جوں جوں ماضی میں ہوئے انصاف کے معاملات پر سے پردہ چاک ہوتا جا رہا ہے، نئے نئے انکشافات اور دعووں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب معروف وکیل اور کالم کار محمد عرفان صدیقی ایڈووکیٹ نے اس وقت کا احوال لکھ ڈالا ہے جب جج ارشد ملک سابق وزیر اعظم نواز شریف پر فرد جرم عائد کر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جج ارشد ملک (مرحوم) کی احتساب عدالت کا چھوٹا سا کمرہ کھچا کھچ بھرا تھا۔نوازشریف بیان پڑھ رہے تھے اور جج ارشد ملک ساتھ ساتھ سامنے رکھے متن کو دیکھ رہے تھے۔ میاں صاحب آخری پیرا گراف پہ پہنچے اور بولے __ ’’میں اپنا بیان ختم کرتے ہوئے، اپنے ایمان، ضمیر اور یقین کی بنیاد پر دو ٹوک الفاظ میں اِس ریفرنس کے تمام الزامات کی تردید کرتا ہوں۔ قانون اور انصاف کے ترازو میں اس ریفرنس کا کوئی وزن نہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ معزز عدالت سارے معاملے کا ایک سچے، کھرے اور فرض شناس مُنصف کے طور پر جائزہ لے گی…‘‘ نوازشریف یہاں تک پہنچے تھے کہ جج صاحب نے جھُرجھُری سی لی اور بولے __ ’’بس بس بس۔ آگے نہ پڑھیں‘‘ میاں صاحب نے کاغذ سے نگاہ اٹھا کر لمحہ بھر کے لئے جج کو دیکھا اور انکی ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے بیان کے آخری جملے پڑھنے لگے۔ ’’آج میں آپ کی عدالت میں کھڑا ہوں۔ کل ہم سب کو اللہ کی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔ وہ عدالت کسی جے۔آئی۔ٹی، کسی ریفرنس، کسی استغاثہ اور کسی گواہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو سرخرو فرمائے۔‘‘

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ جج ارشد ملک نے میاں صاحب کو یہ جملے پڑھنے سے کیوں روکا تھا؟ اُس نے جھُرجھُری کیوں لی تھی؟ شاید اُس کے اندر کوئی گھنٹیاں سی بج اٹھی تھیں۔ فیصلہ تو سنا دیا لیکن یہ راز بھی فاش کرگیا کہ اُس پر کیا دبائو تھا۔ خودرائیونڈ جا کر روتے ہوئے معافی بھی مانگی۔بلاشبہ کسی بڑی عدالت کا خوف اُسے بے کَل کئے ہوئے تھا۔

سو اللہ کے حضور پیش ہونے سے پہلے وہ اپنے بال وپر سے، لغزشوں اور کوتاہیوں کا گردوغبار جھاڑ دینا چاہتا تھا

جواب دیں

Back to top button