Column

موسمیاتی تبدیلی پر وار: ہتھیار نہیں پیار

تحریر : کاشف حسن
متحدہ عرب امارات کے معاشی دارالحکومت دبئی میں عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہوں کے لیے 30نومبر 2023کو کانفرنس آف دی پارٹیز ( کوپ 28) شروع کی گئی جو 15دن جاری رہنے کے بعد اس اعلامیہ کے ساتھ ختم ہوئی کہ کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے خام تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال بتدریج ختم کیا جائے گا۔ کانفرنس کے دوران دو گروپ نمایاں نظر آئے جن میں ایک گروپ 100سے زائد ممالک کے نمائندگان پر مشتمل تھا جن کی طرف سے منظور شدہ قرار داد تجویز کی گئی تھی جبکہ دوسرا گروپ آئل پروڈیوسنگ ( اوپیک) ملکوں کا تھا جو مذکورہ قرار داد کی مخالفت کرتا نظر آیا اور اسی رسہ کشی کے سبب شیڈول کے مطابق12 دسمبر2023کو ختم ہونے والی کانفرنس میں ایک دن کی توسیع کی گئی۔ یہ کانفرنس دو گروپوں کے بیانیے کے علاوہ بھی متعدد تنازعات سے دوچار رہی اور عین اس وقت منعقد ہوئی جب حماس کی جانب سے شروع کی گئی اسرائیل فلسطین کی جنگ میں آئی ڈی ایف کے جوان نہتے فلسطینی بزرگ، خواتین اور بچوں کو گرجا گھروں، مساجد، ہسپتالوں، سکولوں، گزرگاہوں بلاامتیاز عیسائی و مسلمان اندھا دھند فضائی حملوں کا نشانہ بناتے رہے اور اس نسلی کشی میں 18ہزار سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔ دوسری
طرف حماس نے بھی غزہ کو اسرائیلی افواج کے 1683 جوانوں بشمول کمانڈرز اور عسکری ٹینکوں کے لیے قبرستان بنا دیا۔ کانفرنس میں ابتدائی طور پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ وہاں پہنچے تو ایرانی صدر نے شرکت سے انکار کر دیا۔ کانفرنس کے اختتام پر ہونے والے فیصلے میں خام تیل، گیس اور کوئلے یعنی نامیاتی ایندھن کے استعمال کو ختم کرنا تو تحریر کردیا گیا لیکن ان صاحبان اقتدار نے اپنے ان لوگوں کی آواز کانفرنس میں نہیں پہنچائی جو فلسطین میں نسل کشی کے خلاف دن رات سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اور حلق پھاڑ پھاڑ کر انسانیت کے ایوانوں میں بیٹھے گونگے ، بہرے اور اندھے وکیلوں سے کہہ رہے ہیں کہ اس گولہ ، بارود اور انسانیت کش اسلحہ کے گھنائونے کاروبار کو بند کرو جو انسانوں کے درمیان رنگ، نسل، مذہب اور عقیدہ کی بنیاد پر اپنے کالے دھندے چلا کر معصوم انسانوں کو محکوم بنائے ہوئے ہیں۔ وسائل اور اختیارات پر قبضہ کی یہ جنگ انسانوں کو بھیڑیا بنا چکی ہے۔ وہ ہوس اقتدار میں انسانیت سوز کام کر جاتے ہیں اور بظاہر حکمرانی کی شاہی پوشاک زیب تن کئے رکھتے ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کی تقسیم کے بعد باقیات کی بندر بانٹ میں ملنے والے اقتدار کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ یہ لوگ اس قدر نااہل ہیں کہ نوآبادیاتی دور کے سقم زدہ غلامی کو فروغ دینے والے قوانین میں اب تک موثر ترامیم نہیں کر سکے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ چار سال بعد جس اقتدار کے حصول کے لیے یہ کوشش کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بدعنوانی پر استوار مروجہ نظام ختم ہوجائے اور ان کے دوبارہ اقتدار کے ابواب پر دائمی قفل نصب ہوجائے ۔ ایک تحقیق کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز سے 2023ء تک مجموعی طور پر دنیا میں 260سے زائد جنگیں اور بغاوتیں ہیں جو منظر عام پر آچکی ہیں اور ان میں مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا جو نسل انسانی کے قاتل ہونے کے ساتھ ماحولیاتی نظام کے توازن بھی نامیاتی ایندھن کے استعمال سے کئی سو گنا زیادہ بگاڑ لاتے ہیں۔ اگر دنیا کے ساتھ ارب افراد معمول کا نامیاتی ایندھن استعمال کریں تو وہ گلیشیئرز
پگھلنے کا اتنا تیز محرک ثابت نہیں ہوں گے جتنا کہ سیاچن کے مقام پر پاک بھارت جھڑپیں ہوں گی۔ یہ وہ باب تحقیق ہے جس پر اقوام متحدہ سمیت موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے نبرد آزما تنظیموں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ کسی بھی نظریہ یا بیانیے پر ہونے والی لڑائی کے پس پردہ مالی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ لڑائیاں دو ملکوں کے درمیان ہوں یا ایک ہی سرزمین پر مختلف گروہوں کے درمیان لازمی طور پر ان لڑائیوں کا مطمع نظر کوئی مالی مفاد ضرور ہوگا۔ فرقہ ورانہ، لسانیت یا نسلی بنیادوں پر ہونے والی لڑائیاں بھی قتل و غارت اور جلائو گھیرائو کی شکل میں ابھرتی ہیں۔ اس شر پسندی کے پیچھے بھی سب سے بڑا محرک مخصوص اقلیت کو علاقہ بدر کرکے ان کی زمینیں کوڑیوں کے مول خریدنا اور مہنگے داموں والے نئے رہائشی پراجیکٹ تشکیل دینا ہوتا ہے۔ انسان کا سکون برباد کرنے والوں کا کوئی نظریہ یا عقیدہ نہیں ہوتا بلکہ مال کی ہوس میں وہ تنگ نظری ہوتی ہے، جو دوسروں پر زندگی اور زمین تنگ کرنے پر اکساتی ہے۔ عقیدے کی کھیتی انسانیت کی زمین پر اگتی ہے۔ درندگی کی بنجر زمین پر کوئی عقیدہ یا نظریہ نہیں اگتا۔ ہر دھرم، مذہب یہ ترغیب دیتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے عالم انسانیت کو محفوظ بنایا۔ رواداری کے ماحولیاتی نظام میں سانس لینا جنت میں وقت گزارنے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے ہاتھ اور زبان سے ہمارا پڑوسی محفوظ نہیں تو ہم کسی عقیدے پر تو کیا انسانیت پر بھی نہیں ہیں۔ یہی ہر دھرم مذہب کی تعلیمات ہیں۔ اگر ہم واقعی اس دنیا کو جنت نظیر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے رویوں اور بتدریج اقوام عالم کے مشترکہ اعلامیوں میں ایسی ترامیم کرنا ہوں گی کہ ہر انسان کو من حیث الانسان اس کے جینے کا قدرتی حق بے مول مل سکے اور انسان کا بنیادی حق صحت مند زندگی ہے جو اسلحہ سازی کی صنعت کو دفن کرکے بہتر انداز میں مل سکتا ہے۔ اس کے لیے تمام ریاستوں کو ایک عظیم قائد کی طرح اپنی آنے والی نسلوں کی بقاء کے لیے اقدامات کرنا اور اپنے عوام کی ان خطوط پر تربیت کرنا ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button