Column

تین بڑے قومی مسئلے

تحریر: سید ہ عنبرین
سمجھ نہیں آتی چھوٹی چھوٹی باتوں کو ملکی سطح پر اہمیت کیوں دی جاتی ہے، کہیں پریشانی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں دن بدن کمی واقع ہورہی ہے، کوئی اس بات کو رو رہا ہے کہ ہماری امپورٹ زیادہ اور ایکسپورٹ اس کے مقابلے میں جتنی ہونی چاہئے اتنی نہیں ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے ہمیں نہایت خاموشی سے اسرائیل پر ایٹم چلا دینا چاہئے جو فلسطین کو آزاد کرانے کا واحد طریقہ ہے اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے سبب ہمارا ہی فرض ہے، ایٹم بم اگر وقت کے ساتھ ساتھ اور کرنسی کی قدر کم ہونے سے بہت مہنگا ہوگیا ہے تو اپنی افواج اسرائیل میں اتار دینا چاہئیں، یہ بھی مشکل ہو تو کم از کم سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اور بالخصوص مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو فلسطین جانے کی اجازت دے دینا چاہئے کیونکہ مشکل وقت پڑنے پر یعنی قیام پاکستان کے فوراً بعد جب بھارت نے کشمیر پر حملہ کیا تو اس وقت دستیاب مجاہدین نے ہماری مدد کی، پھر جب روس نے افغانستان پر قبضے کی کوششیں کی تو اسے بھی لوکل اور غیر ملکی مجاہدین نے مل کر ناکام بنایا، اب اگر ہم کڑے وقت میں اپنے مجاہدین کو اذن جہاد نہ دیں گے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی کیونکہ ہم ہزاروں افراد کو ایک نیک عمل سے روک رہے ہیں جو ایک فرض ہے، ملکی لاء اینڈ آرڈر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، سرحدوں پر اور سرحدوں کے اندر آتش بازی چلتی رہتی ہے، اس سے کیا گھبرانا، ڈاکٹروں اور سیاہ کوٹ والوں کی ناراضی کی تو کوئی اہمیت نہیں، وہ آج خاموش ہیں تو کیا ہوا، کل خوش ہو جائینگے، وہ یعنی سفید کوٹ والے اگر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں تو انہیں سمجھانا چاہئے کہ یہ مطالبہ سو فیصد ناجائز ہے لہٰذا حکومت اس پر کان نہ دھرے گی۔ اگر ان کا خیال ہے کہ وہ صوبے بھر میں ہڑتال کر دیں گے اور نظام کو جام کر دیں گے تو انہیں باور کرانا چاہئے کہ انہیں اپنے مذموم مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوگی، حکومت سے لڑنا آسان نہیں ہوتا، پھر انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ان کے مفاد میں نہ ہوگا، سفید کوٹ والوں کو اس بات کا بالکل ادراک نہیں کہ "محسن سپیڈ”کو حکومتی رٹ نافذ کرنا آتی ہے، انہوں نے بذات خود بھی یہ بات سفید کوٹ والوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں سمجھ جانا چاہئے، اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنا زیادہ ضروری ہے کہ جو باتوں سے نہ سمجھے اسے پھر کسی اور طریقے سے سمجھایا جاتا ہے، سفید کوٹ والوں نے
ابھی "محسن سپیڈ” کا پیار دیکھا ہے، غصہ نہیں دیکھا، اس خیال کو دل سے نکال دینا چاہئے کہ پرانی سی نیلے رنگ کی جینز اور ٹی شرٹ کے اوپر دس سال پرانے ماڈل کا نیلا کوٹ پہنے صبح شام دن رات لاہور کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھاگتا کوئی عام شام سا بائو ہے جسے دھمکیاں دے کر ڈرا دھمکا کر اپنا کام نکلوایا جاسکتا ہے، وہ بائو شائو ہے نہ کبھی تھا، وہ دیدہ بینا رکھنے والا منجھا ہوا سیاست دان ہے، اس نے چند ماہ کی سیاسی زندگی میں وہ کچھ حاصل کیا ہے جو شہباز سپیڈ برس ہا برس میں نہ پا سکے، قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے، انہیں یاد ہونا چاہئے کہ چند ماہ قبل شہباز سپیڈ نے محسن سپیڈ کی تعریف کی تھی اور قوم کو بتایا تھا کہ "محسن سپیڈ” کے کام اور رفتار ان سے بہتر ہیں، یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام ہیں، پاکستان کا اصل مسئلہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے شادی سے قبل کے تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کے نکاح کے بعد کے تعلقات ہیں جبکہ دیگر دو مسئلے بھی اسی نوعیت کے ہیں، تاریخ کو درست رکھنا حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، پس یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ شادی سے قبل عمران خان جب بشریٰ بی بی کے گھر آتا تھا تو اس کی نیت کیا ہوتی تھی، وہ دن کی روشنی میں آتا تھا یا رات کے اندھیرے میں، مانیکا صاحب سے اجازت لیکر یا بلا اجازت، ان کی موجودگی میں یا غیر حاضری میں، پھر بشریٰ بی بی اس سے حجاب و نقاب میں ملاقات کرتی تھیں یا بے حجابانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں، یہ ملاقاتیں ڈرائنگ روم میں ہوتی تھیں یا بیڈ روم میں، بیڈ روم کی کنڈی کھلی ہوتی تھی یا کنڈی چڑھی ہوتی تھی، ایک گھریلو ملازم کے بیان کے مطابق ایک روز وہ اچانک جب بیڈ روم میں گیا اور اس نے جو کچھ دیکھا اور عدالت کے روبرو بیان کیا وہ کیسے ہوا، کنڈی لگانے والے کنڈی لگانا بھول گئے تھے یا ملازم نے ہلکا سا ہاتھ دروازے پر رکھا ہی تھا کہ دروازہ چوپٹ کھل گیا، قوم کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بشریٰ بی بی جب خان پر دم درود کرتی تھیں تو انہوں نے ان کا صرف ہاتھ پکڑ رکھا ہوتا تھا یا کچھ اور بھی، یہ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض دم کرنے والے یا دم کرنے والیاں، دم کرانے آنے والے کے سر کو اپنی دو انگلیوں اور ایک انگوٹھے میں پکڑ کر اس جادو کو باہر نکالنے کا عمل کرتے ہیں، جو اس پر دشمنوں نے کیا ہوتا ہے، دم کے دوران بشریٰ بی بی جو پھونکیں مارتی تھیں ان کا درجہ حرارت کیا ہوتا ہے، پھونکیں ٹھنڈی اور گرم دو طرح کی ہوتی ہیں، بعض جگہ ٹھنڈی پھونکیں کام آتی ہیں بعض جگہوں پر گرم پھونکیں کام دکھاتی ہیں، جہاں ٹھنڈی پھونکیں ضروری ہوں وہاں گرم اور جہاں گرم پھونکوں کی ضرورت ہو وہاں ٹھنڈی پھونکیں ماری جائیں تو بنا بنایا کام بگڑ جاتا ہے، جسم میں کئی جگہوں پر کڑول پڑ جاتے ہیں جنہیں نکالنے کیلئے اور بہت کچھ کرنا ضروری ہوجاتا ہے، یہاں مراد مساج ہے۔
مظلوم مانیکا صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ جب انہوں نے دم کرانے والے مریض کو اپنے یہاں آنے سے منع کیا تو کیا وہ باز آیا یا رات کو دیوار پھاند کر آیا کرتا تھا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آج سے قریباً تین برس قبل انہوں نے اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں وہ بتا رہے تھے کہ بشریٰ بی بی ایک نہایت نیک اور پارسا خاتون ہیں جو ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہتی ہیں، وہ ہر وقت نقاب و حجاب میں رہتی ہیں، آج تک کسی غیر مرد نے ان کا چہرہ نہیں دیکھا، حتیٰ کہ ان کا خاوند ہونے کے باوجود انہوں نے بھی کبھی نظر بھر کے انہیں نہیں دیکھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کا گھر ایک پیر خانہ ہے جس میں لوگ آتے ہیں اور اپنے دل کی مرادیں پاتے ہیں۔ خان صاحب ان کے مریدوں میں سے ایک تھے اسی حوالے سے آتے تھے، ان دونوں کے آپس میں تعلقات نہایت پاکیزہ تھے، ان پر جو لوگ من گھڑت الزامات لگا رہے ہیں انہیں خوف خدا ہونا چاہئے، وہ اللہ کو جواب دہ ہونگے۔
مظلوم مانیکا صاحب سے قوم کی درخواست ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش سب سے اہم مسئلے میں راہنمائی فرمائیں اور واضح کریں کہ ان کا جاری کردہ یہ ویڈیو بیان درست ہے یا خان حکومت ختم ہونے کے بعد ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے کے بعد کے بیانات درست ہیں۔ مزید برآں ان سے درخواست ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کیلئے ایک عظیم الشان پریس کانفرنس کریں تاکہ سوال و جواب کے بعد قوم کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہوجائے اور وہ غیر اہم معاملوں پر توجہ دے سکے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ٹک ٹاکر رحیم شاہ سے متعلق ہے جبکہ تیسرا مسئلہ علیزے سحر کی برہنہ ویڈیو ہے۔

جواب دیں

Back to top button