Column

انتخابی اونٹ کا موڈ

تحریر : سیدہ عنبرین
ملک بھر کی سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے دو حصوں میں بٹی نظر آتی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف یکسو ہیں، جبکہ دیگر نیم درون نیم بیرون کی کیفیت میں ہیں۔ تحریک انصاف کا ترجمان کوئی نہیں لیکن وہ بہت پرجوش ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے دو صوبوں میں انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال کے مطابق وہاں حالات ساز گار نہیں۔ امن و امان کی صورت تسلی بخش نہیں دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، تخریب کار ، سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے جانوں کی قربانی دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ بلوچستان کے علاوہ صوبہ خیبر میں بھی تخریب کار موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، چلاس میں اسلام آباد جانے والی بس پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 9افراد جاں بحق ہوئے 6ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ واقعے سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے، دیامر پولیس نے کاروائی شروع کر دی، گلگت بلتستان کے تمام داخلی و خارجی راستے بند کر دئیے جبکہ سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے مطابق فروری میں انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے اس بات پر روز دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات کی کوشش کریں کہ انتخابات متنازعہ نہ ہوں۔ راجہ پرویز اشرف کسی کے مکمل کہنے میں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے راہنما اپنے ہم خیالوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں وہ باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جماعت میں کھینچ لائے ہیں قائد اعظم مسلم لیگ سے ان کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہو چکی ہے جبکہ آئی پی ییز سے پہلی ملاقات میں متعدد بنیادی امور طے پا گئے ہیں۔ اس پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ گل ہو گئی اے‘‘ کا فلسفہ مارکیٹ کرنے سے انہیں فائدہ ہوا ہے۔
میاں نواز شریف نے حکومت کے ساتھ ساتھ احتساب کی فرمائش بھی پیش کر دی ہے وہ ان کا خاندان اور ان کی جماعت آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے ’’ چپڑی ہوئی اور دو دو‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ان کے بیان سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وہ الیکشن لڑ کر اکثریت کے بل بوتے پر وزیر اعظم بننے کے بجائے کسی اور فارمولے یا کسی معاہدے کے مطابق اقتدار چاہتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے مخالفین کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں الیکشن کے میدان میں اتارا جائے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ اقتدار کے ساتھ ساتھ احتساب بھی چاہیے تو اس کا کوئی اور مطلب نہیں نکلتا۔ان کے ماضی کے تین مرتبہ اقتدار کو دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ وہ عدالتوں کے ذریعے احتساب پر مطمئن نہیں ہوتے وہاں بھی ان کی فرمائش سامنے رکھ دی جاتی ہے کہ فلاں کو اتنی سزا دو فلاں کی سزا کم ہے۔ اسے بڑھا دو ان کی حکومت میں احتساب کم اور سیاسی دشمنی زیادہ نبھائی گئی۔ مگر وہ صلح جو مشہور ہیں وہ اقتدار سے باہر ہوں تو انہیں درجنوں معاملات میں کرپشن اور سازشیں نظر آتی ہیں وہ ہر معاملے پر کمیشن بنانے اور تحقیقات کی بات کرتے نظر آتے ہیں لیکن حصول اقتدار کے بعد وہ نہایت خوبصورتی سے اپنے تمام کرنے والے کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انہیں کوئی کمیشن کوئی تحقیقات کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ انہوں نے ایک معاملے میں خوب سرگرمی دکھائی بھارت نے ہمارے ادارے پر الزام لگایا تو جناب نواز شریف کی حکومت نے اپنی ادارے کیخلاف ایف آئی آر درج کرا دی اور تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ شاید وہ اس عمل سے ثابت کرتا چاہتے تھے کہ وہ تحقیقات اور احتساب پر یقین رکھتے ہیں مگر کتنا یہ ان کے تین مرتبہ کے اقتدار میں بہت حد تک واضع ہو چکا ہے وہ ایکسٹینشن ازم پر یقین رکھتے ہیں لیکن صرف اس صورت جب ایکسٹینشن لینے والا انہیں بھی من کی مراد سے مالا مال کر دے اگر انہیں ’’ صاحب ایکشن‘‘ سے کوئی فائدہ نہ لینا ہو تو ان کا ایک مختلف اصول اور اصولی موقف سامنے آتا ہے وہ باہمی محبت کے اسیر ہو کر ایکسٹینشن قانون بدلنے میں معاونت کو بھی جائز سمجھتے ہیں کبھی وہ کسی کو لارے میں رکھتے نظر آتے ہیں تو کسی کو پلیٹ بھرکر ایکسٹیشن دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی نے انتخابات کے حوالے سے اپنی الیکشن مہم شروع نہیں کی وہ اپنی قیادت کے خلاف مقدمات کے فیصلوں کے بعد فیصلہ کن انداز میں متحرک ہونگے۔ خیال ہے کہ ان کی بی کلاس لیڈر شپ اور کارکن شاید اس انداز میں ہمیں متحرک نظر نہ آئیں۔ لیکن پولنگ ڈے پر وہ موثر انداز میں اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ضرور کریں گے۔
قومی اسمبلی کیلئے مقابل امیدواروں کی ہار جیت میں مارجن بہت کم ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اگر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بجائے مقابل آنے کا فیصلہ کر لیا تو ان دو جماعتوں کے علاوہ پی ٹی آئی آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اور ایک مذہبی جماعت کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ ووٹ کو زیادہ حصوں میں تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے مختلف جماعتیں مختلف قسم کی حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیں۔ فرور ی میں ہونے والا الیکشن ملک کی تاریخ کا مہنگا ترین الیکشن ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے ضابطوں کے مطابق اخراجات کی ایک حد مقرر ہے۔ ہر امیدوار ہر الیکشن میں اس حد سے کئی گنا زیادہ خرچ کرتا ہے لیکن اس حد سے گزر جانے پر آج تک کسی سیاسی شخصیت کو نااہل قرار نہیں دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن گزشتہ الیکشن کی نسبت زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کے کسی بھی حلقے سے امیدوار کو یہ الیکشن کم از کم پانچ سے سات کروڑ روپے میں پڑے گا جبکہ صوبائی اسمبلی کا پنجاب اور صوبہ خیبر میں ہونے والا الیکشن چار کروڑ روپے تک متقاضی ہو گا۔ بلوچستان اسمبلی کا الیکشن کسی اور انداز میں لڑا جاتا ہے یہاں نقد رقم کا رواج کم ہے البتہ مرغن کھانوں کی دیگیں مہمان نوازی کے جذبے کی پیوند کاری کے ساتھ چڑھائی جاتی ہے اور پیش کی جاتی ہیں۔
سندھ پیپلز پارٹی کا گھر ہے شہر کی چند سیٹوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کو عرصہ دراز سے وہاں اکثریت حاصل ہے۔ سندھی ووٹرز صوبائی اسمبلی کیلئے ووٹ دینے کے بدلے وہ زندگی کی سہولتیں کبھی نہیں ملیں جو ان کا حق ہے۔ رورل سندھ میں آج بھی خاک اڑ رہی ہے انسان کے چہرے پر زندگی کے آثار کم اور مردنی کے زیادہ نظر آتی ہے۔ آ زاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پہلے اسلام آباد کو دیکھا جاتا ہے پھر کچھ کیا جاتا ہے، وہاں کرنسی بہت طاقتور ہے اس کے سامنے سب بے بس نظر آتے ہیں مگر انتخابی اونٹ کا موڈ ابھی واضع نہیں کسی رخ بیٹھے گا یا بھاگ اٹھے گا۔

جواب دیں

Back to top button