Column

تحریک پاکستان کا سپاہی۔۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی

ڈاکٹر سید ندیم الحسن گیلانی

ہماری حیات ملی میں کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے شب وروز فرنگی حکمرانوں سے نجات، آزاد وطن کے قیام اور پھر مملکت اسلامی کی تعمیر و استحکام کے لئے وقف کئے رکھے۔ یہ وہ خوش قسمت افراد تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں فرنگی حکمرانوں کو رخصت ہوتے اور آزادی کا سورج چڑھتے دیکھا۔ پھر آزاد فضائوں میں سانس لیا ۔ ایسے افراد کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو ان میں ایک نمایاں نام حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کا ہے جنہوں نے اپنے عزم و عمل ، خلوص و محبت، علم و فضل ، شعر و شاعری، ملی و طبی اور سماجی بہبود کے میدانوں میں لافانی نقوش چھوڑے اور تاریخ کے صفحات پر زندہ جاوید ہوگئے ۔
حکیم عنایت اللہ نسیم نے تاریخی اور مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں 1911ء میں ایک دین دار گھرانے میں جنم لیا ۔ ابتدائی تعلیم سوہدرہ سے حاصل کی، پھر مشن ہائی سکول وزیر آبادسے میٹرک کیا۔ اس دوران ان کا تعلق مولانا ظفر علی خان سے قائم ہوا۔ مولانا کا گاؤں کرم آباد سوہدرہ اور وزیر آباد کے درمیان تھا۔ سکول آتے جاتے مولانا کی کرم آباد موجودگی پر ان سے استفادہ کرتے، ان کے درمیان تعلق قرب زمانی و مکانی کے ساتھ ساتھ ذہنی ہم آہنگی ونظریات کی وجہ سے بڑھتا گیا۔ پھر مولانا کے ایما پر مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طبیہ کالج چلے گئے جو ان دنوں ملی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانان برصغیر کا مرکز تھا۔ حکیم صاحب جو مولانا ظفر علی خان سے فکری طور پر متاثر تھے، ان سرگرمیوں کا حصہ بن گئے اور علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے اور ان طلبہ میں شامل تھے جنہوں نے قائد اعظمؒ کی علی گڑھ آمد پر ان کی بگھی کو کندھوں پر اٹھا یا تھا۔ وہ علی گڑھ میں ختم نبوت کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اس دوران علامہ اقبالؒ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ تحریک پاکستان میں ابو سعید انور اور دیگر ر ہنمائوں کے ہمراہ دورے کئے، انہیں طلبہ وفود میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں دہلی ، پٹنہ اور 23مارچ 1940ء لاہور کے تاریخی اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا اور پھر اپنی زندگی میں غلامی کی سیاہ رات کو ختم ہوتے اور فرنگی حکمرانوں کو رخصت ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد نوزائیدہ مملکت اسلامی کی تعمیر کے لئے سربکف ہوگئے تحریک ختم نبوت 1953ء میں گرفتار ہوئے تحریک جمہوریت میں کام کیا، تحریک نظام مصطفی ٰؐ میں حصہ لیا۔ اللہ نے انہیں تحریر و تقریر کی خوبیوں سے نوازا تھا، اخبارات میں کالم لکھتے، سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے۔ رسول کائناتؐ، قائد اعظمؒ کی شخصیت و حیات اور طب و صحت پر کتب لکھیں۔ ’’ مولانا ظفر علی خان اور ان کا عہد‘‘ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔
حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی ہر سال مولانا ظفر علی خان کی برسی پر تقریبات کرتے، نیا مضمون لکھتے، مولانا کے بعد ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے میں سب سے زیادہ کردار ان کا ہے۔ مجیب الرحمان شامی نے خوب لکھا ہے کہ:حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی کو اپنے لڑکپن اور جوانی میں ان کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا جو موقع ملتا رہا ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔ سوہدرہ کرم آباد سے چند قدم کے فاصلہ پر ہے۔ حکیم عنایت اللہ نے اس ہمسائیگی کا خوب فائدہ اٹھایا، مولانا کی صحبت سے جو کچھ حاصل کیا اس میں محبان ظفر کو یوں شریک کیا کہ ’’ مولانا ظفر علی خان اور ان کا عہد‘‘ قلم بند کر ڈالا۔ جو پاکستان کی تاریخ ، سیاست اور صحافت کے طالب علموں کے لئے تحفہ خاص ہے، راقم ان افراد میں شامل ہے جنہیں حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہے۔ انہیں قریب سے دیکھنے، ان کی باتیں سننے اور جاننے کے مواقع ملے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر جہلم تھا اور مولانا ظفر علی خان پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا ۔ میں ان سے ملنے ان کی اقامت گاہ سوہدرہ جاتا اور رہنمائی لیتا تھا۔ ان سے پہروں نشست ہوتی۔ میں نے دیکھا کہ وہ انتہائی منکر المزاج ، دھمے لہجے والے اور ذاتی زندگی میں مسلمان تھے۔ ان کے سراپا میں بہت دلآویزی اور گھلاوٹ تھی، لمبا قد ، مشرقی وضع و قطع ، سفید رنگ اور سفید ریش مبارک، سر پر جناح کیپ، شلوار قمیض پر علی گڑھ کٹ شیروانی، ہاتھ میں چھڑی ،جیب میں گھڑی ،لب و لہجہ میں متانت ، دل و دماغ سوچوں میں گم، گفتار مثل آبشار اور گرم دم جستجو ،نرم دل گفتگو کی تصویر تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ راہ حق کے مسافر تھے اور زندگی کا مقصد خدمت خلق رہا۔ شعائر اسلامی کا بہت احترام کرتے اور مولانا ظفر علی خان کی طرح جس کام میں حصہ لیتے اس کا مقصد اسلام کی سر بلندی اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ رہا ۔ اللہ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت طبیب، ادیب، صحافی، مصنف اور شاعر بھی تھے مگر نام و نمود سے دور رہتے تھے۔ کبھی کلام شائع نہیں کرایا، ان کی شاعری ہجر و وصال کی بجائے ملی جذبات کی آئینہ دار تھی۔ ان کا معروف شعر ہے:
بس کہ نسبت ہے محمد سے غلامانہ مجھے
میری درویشی بھی رشک شوکت شاہانہ ہے
اپنے علاقے میں رفاہی سرگرمیوں کے لئے ایک ٹرسٹ اور رفاہی تنظیم بنائی، مقام مسرت ہے کہ ان کے فرزند ارجمند حکیم راحت نسیم سوہدروی آج اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مجلس کارکنان تحریک پاکستان کے سرکردہ ارکان میں سے تھے۔ انجمن حمایت الاسلام کی جنرل کونسل کے ممبر بھی تھے۔ سوہدرہ سے کونسلر بھی منتخب ہوتے رہے۔ انہیں حکومت کی جانب سے تحریک پاکستان گولڈ میڈل بھی ملا تھا۔ نیشنل کونسل فار طب کے کوئی پندرہ سال تک ممبر رہے۔ کنٹرولر امتحانات اور چیئرمین امتحانات بھی رہے۔ ان سب مصروفیات کے باوجود باقاعدگی سے مطب بھی کرتے اور حکماء کے لئے ملک بھر کے دورے کرتے۔ وہ بلند فکر طبیب تھے اور طب کی دنیا کی عظیم شخصیت حکیم محمد سعید شہید کے قریبی رفقا میں سے تھے۔ آپ 9دسمبر1994 ء جمعہ کی شام چند روزہ علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے۔ حافظ احمد شاکر ابن عطا اللہ خنیف نے نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں ان کے آبائواجداد کے پہلو میں سوہدرہ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

Back to top button