Column

بلاول بھٹو کی پنجاب میں انٹری

فرخ بصیر

الیکشن کمیشن کی طرف سے 15یا 16دسمبر کو الیکشن شیڈول دیئے جانے سے پہلے ہی سیاسی جماعتوں کے درمیان جلسے، جلوسوں اور پریس کانفرنسز میں جلوہ افروزیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر بھی مسکراتے ہوئے پولنگ 8فروری کو ہونے کی خوشخبری سناتے دکھائی دئیے ہیں مگر اس سب کے باوجود عام انتخابات پر منڈلاتے شکوک و شبہات کے سائے ماند نہیں پڑ رہے اور ان شکوک میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا ہے جب مولانا فضل الرحمن موسم کا اور انکے رشتہ دار خاص گورنر خیبر پختونخوا امن و امان کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یہ سب کچھ معلوم ہے مگر اس کے باوجود کوئی انتخابی میدان کو اپنے مخالف کیلئے خالی نہیں چھوڑنا چاہتا، بعض سیاسی جماعتوں کے درمیان صوبائی اور علاقائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ تا دم تحریر ن لیگ کی جے یو آئی، ایم کیو ایم، ق لیگ اور بعض چھوٹی جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کمیٹیاں بن چکی ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت یا تو اپنے امیدوار فائنل کر رہی ہیں یا ان کے انٹرویوز کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر اس وقت تک صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی عوامی رابطہ مہم شروع کئے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کا مستقبل عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے درمیان ہچکولے کھا رہا ہے۔ ن لیگ بلوچستان اور پنجاب میں ڈویذن وائز امیدواروں کے انٹرویوز کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں اسی مرحلی میں مصروف ہے جبکہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس وقت خیبر پختونخوا کے محاذ پر پھر سے سرگرم عمل ہیں۔ ماضی قریب میں بھی وہ اس صوبے میں چار پانچ مقامات پر کامیاب جلسے کر کے سیاسی مخالفین پر اپنی دھاک بٹھا چکے ہیں اور اس کے بعد کوئٹہ میں یوم تاسیس کے شاندار جلسے کے بعد انہوں نے شانگلہ میں جو بھر پور انٹری دی ہے اس نے کم از کم اب خیبر پختونخوا میں سیاسی مخالفین کو یہ ضرور باور کرا دیا ہے کہ 8فروری کا الیکشن عوام کی بجائے کسی اور کے زور بازو پر لڑنے والوں کو میدان کھلا نہیں ملے گا، بلوچستان اور سندھ سے قابل قدر الیکٹیبلز کے علاوہ باپ پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ عبد القدوس بزنجو سا بق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ بلوچستان سے دیگر اہم شخصیات اور الیکٹیبلز یار محمد رند، عمر جمالی، سکندر عمرانی اور ضیاء لانگو کی آنیوالے دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد بھی جنوبی اور سنٹرل پنجاب کے علاوہ بلوچستان سے بعض اہم سیاسی شخصیات، خاندان اور گروپس الیکشن شیڈول آتے ہی پیپلز پارٹی میں جوق در جوق شمولیت کے لیے تیار بیٹھے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کے پے در پے کامیاب جلسے اہل پنجاب کیلئے بھی نہایت خوشی اور جوش و جذبے کا باعث بن رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی وسطی پنجاب اور اس کی ڈویژنل و ڈسٹرکٹ تنظیموں اور پارٹی امیدواروں کا اصل امتحان 12دسمبر کو ہے جب بلاول بھٹو پنجاب کے انتخابی محاذ کے پہلے مرحلے میں گوجرانوالہ میں پہلے ورکرز کنونشن سے خطاب کرینگے، دیکھا جائے تو اہل پنجاب کیلئے 12دسمبر 8فروری ہے، پہلوانوں کے شہر پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے جس سے عہدہ برا ہونے کیلئے گوجرانوالہ ڈویژن کے ٹکٹ ہولڈرز اور تنظیموں نے سر جوڑ لیے ہیں کہ بلاول بھٹو کے شایان شان جلسہ گاہ کو کیسے بھرنا ہے کیونکہ جیالوں سمیت پورا پاکستان کوئٹہ اور شانگلہ جیسے کامیاب جلسوں کا عکس گوجرانوالہ میں دیکھنا چاہتا ہے اور اسی روز سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت تقریباً 11برس کے طویل عرصے بعد دوبارہ کریگا۔ گوجرانوالہ کے بعد لاہور، فیصل آباد، ساہیوال، سرگودھا اور راولپنڈی ڈویژنوں میں بھی بلاول بھٹو ورکرز کنونشنز سے خطاب کرینگے۔ صوبائی دارالحکومت میں بلاول بھٹو کا جلسہ کامیاب بنانے کیلئے ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ تنظیموں نے تاریخی موچی دروازے اور لبرٹی چوک میں سے کسی ایک مقام پر جلسے کیلئے صلاح مشورے شروع کر دئیے ہیں۔ یہ جلسہ لاہور تنظیم اور یہاں سے قومی اسمبلی کے14اور پنجاب اسمبلی کے 30حلقوں سے الیکشن لڑنے والے پیپلز پارٹی کے امیدواروں اور پارٹی تنظیموں کی اہلیت، کارکردگی، محنت اور خلوص کا امتحان ہے، اگر، مگر، ذاتی پسند نا پسند، بہتان طرازی اور ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اگر جیالوں نے لاہور کا جلسہ کامیاب نہ بنایا تو پھر اس سیاسی کھائی سے کوئی جیالا اور اس کا امیدوار 8فروری کے الیکشن میں سر خرو نہیں ہو پائے گا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے تنظیمی عہدیداروں اور امیدواروں کو جہاں ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے اور ٹانگ کھینچنے کی بجائے کندھے سے کندھا ملانے کی ضرورت ہے وہاں پارٹی کی اعلی قیادت کو بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے کارکنوں اور تنظیموں کا حوصلہ بلند کرنا ہو گا۔ ہمارے پارٹی کے ایک نوجوان کارکن ذیشان شامی نے اس حوالے سے بہت خوب تجویز دی ہے کہ لاہور سمیت جہاں جہاں بھی پارٹی کے ورکرز کنونشن ہونے جا رہے ہیں وہاں پارٹی کے ایسے رہنمائوں اور کارکنوں کو بلاول بھٹو خود ٹیلی فون پر اپنے جلسے میں آنے اور ناراض جیالوں کو ساتھ لانے کی درخواست کریں جو اپنے ساتھ ووٹرز اور سپورٹرز کی بڑی تعداد جلسہ گاہ میں لانے کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں تو یقین مانیں صوبائی دارالحکومت سمیت وسطی پنجاب میں بیٹھا جیالا سر کے بل چل کر نہ صرف خود جلسہ گاہ میں پہنچے گا بلکہ وہ تمام عمر اپنی اس عزت افزائی کو نہیں بھولے گا کہ اسے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فون کر کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی تھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب کا انتخابی قلعہ سر کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button