
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی چیئرمین شپ کے لیے عمران خان کے نامزد امیدوار بیرسٹر گوہر علی خان سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے برطانیہ کی والورہیپمٹن یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور واشنگٹن سول آف لا سے ایل ایل ایم کیا۔
ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر سے ہے اور وہ تحریک انصاف سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں اور سنہ 2008 کے عام انتخابات میں تیر کے نشان پر انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔
اس کے بعد وہ طویل عرصہ سیاسی میدان سے دور رہے اور سیاسی جماعتوں کے مقدمات میں وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ بیرسٹر گوہر کئی عرصے تک اعتراز احسن اینڈ ایسوسی ایٹس کے ساتھ وابسطہ رہے اور اعتزاز احسن کی براہ راست نگرانی میں وکالت کرتے رہے۔
اعتزاز احسن کے ساتھ بیرسٹر گوہر سنہ 2007 میں وکلا تحریک میں بھی پیش پیش تھے۔ افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے سلسلے میں بھی مقدمہ لڑنے میں وہ اعتزاز احسن کے معاون رہے۔ تاہم وہ وکلا سیاست میں زیادہ فعال نہیں رہے۔
بیرسٹر گوہر خان گذشتہ ایک سال سے عمران خان کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ہیں، جن کے ذمے تمام قانونی امور کو سنبھالنا ہے اور وہ پارٹی کے قانونی امور پر فوکل پرسن بھی ہیں۔
ابتدائی طور پر بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈگ کیس اور عمران خان کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے مگر پھر جب تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوئی تو ایسے میں جہاں ان کے چیلنجز میں اضافہ ہوا وہیں پارٹی میں ان کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی۔
بیرسٹر گوہر اپنے آپ کو ایک سیاسی کارکن سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سیاسی کارکن کسی نہ کسی پارٹی کے ساتھ تعلق ضرور رکھتا ہے۔ ان کے مطابق تحریک انصاف میں ان کی شمولیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ ’یہ ایک عام آدمی کی پارٹی ہے اور یہ ہر قابل بندے کے لیے پارٹی ہے۔‘ سنہ 2015 سے وہ زیادہ تر تحریک انصاف کے مقدمات میں پیش ہوتے رہے اور پھر انھوں نے تحریک انصاف میں جولائی 2022 میں شمولیت اختیار کر لی۔
اگرچہ ابھی تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے مگر وہ ابھی بھی جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پارٹی سٹرکچر سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان دو جماعتوں کو جمہوری جماعتیں سمجھتے ہیں۔
ان کی رائے میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں عام لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ’اب عمران خان بھی تحریک انصاف میں یہ کلچر متعارف کروا رہے ہیں۔‘ شاید ان کا اشارہ ان کی اپنی طرف ہی تھا۔
بشکریہ بی بی سی







