Column

خسارے کی فصل

صفدر علی حیدری

کوئی ایسا ہے جو خسارہ چاہتا ہو مگر کتاب گواہی دیتی ہے کہ انسان خسارے میں ہے ۔ انسانوں کی اکثریت گھاٹے میں ہے۔ سوائے اس قلیل تعداد کے جو چار خوبیوں کی حامل ہے۔
ایمان لاتی ہے۔۔۔ اعمال صالح بجا لاتی ہے۔۔۔ حق کی تاکید کرتی ہے۔۔۔ صبر کی تلقین کرتی ہے
یہ شرائط کڑی ہیں ورنہ ہر عام خاص شخص خسارے سے بچ جاتا۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان چار باتوں پر بیک وقت عمل کرنا ضروری ہے ۔ ان میں سے ایک کی بھی کمی روا نہیں۔ ورنہ خسارہ مقدر ٹھہرے گا۔
خسارے کا متضاد نفع ہے اور آپ کو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ ملے گا جو منفعت نہ چاہتا ہو۔ دنیا کے سارے کاروبار اسی منفعت کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ اس جہان رنگ و بو کی ساری رونقیں اسی کی رہین منت ہیں۔ دنیا کے سبھی بازار اسی منفعت سے سجے ہیں اور ہر پیشے، ہر کاروبار کی اساس منفعت ہی ہے۔
اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جب انسان منفعت چاہتا ہے تو خسارے کی فصل کیوں کر کاٹتا ہے۔ جب اسے نقصان پسند نہیں تو وہ گھاٹے میں کیوں رہتا ہے ؟ انسان کو اس کی خواہش نفسانی نے ہمیشہ رسوا کیا ہے ۔ خواہش بذات خود بری نہیں ہوتی۔ ہاں مگر اس کو حاصل کیسے کیا گیا ، یہ دیکھنی والی بات ہے ۔
اسلام انسان کو میانہ روی کا درست دیتا ہے۔ ’’ خیر الامور اوسطہا ‘‘ اس سے انسان کی شخصیت میں توازن آتا ہے ۔ یہ توازن ہی تو زندگی کا حسن ہے ۔ یہ انسان کو گرنے سے بچاتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ خواہ وہ معاملات ہوں خواہ عبادات ۔ چیزوں کے لیے انسان کا بڑھا ہوا عشق ( عشق ممنوع) اسے مجروح کرتا ہے ۔
کتاب الٰہی گواہ ہے کہ انسان گاہے خواہش نفسانی کو اپنا معبود بنا کر پوجتا ہے۔ تھوڑی سی منفعت کے بدلے قرآنی احکامات تک بدلنے سے باز نہیں آتا ۔ الہامی کتابوں میں تحریف اس بات کا بین ثبوت ہے۔ جبھی تو آخری الہامی کتاب کی حفاظت کا ذمہ پروردگار نے خود لیا ہے مگر ۔۔۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
گویا انسان نے اصلاح کو کبھی بھی پسند نہیں کیا ۔ کیوں کہ اگر اسے اصلاح پسند ہوتی تو وہ اسے اپنے لیے پسند کرتا ۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ انسان ہر اچھی چیز اپنی ہوتے دیکھنا چاہتا ہے مگر اصلاح دوسرے کی چاہتا ہے۔ جب جب اسے اصلاح کا خیال آتا ہے، اسے دوسروں کی فکر پڑ جاتی ہے ، سو وہ ان کی اصلاح کے لیے نکل کھڑے ہوتا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ خواہشات فی نفسہ بری نہیں ہوتیں۔ اس کا حصول کے لیی جو ذرائع ہم استعمال کرتے ہیں وہ اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ خواہشات کسی بحر بیکراں کی ماند ہوتی ہیں۔ جو کبھی ختم نہیں ہوتیں ۔ ان میں مدو جزر انسان کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے، عمل تنفس کی مانند ۔ یہ قطار بنائے کھڑی ہوتی ہیں ۔ اپنی باری کا انتظار کرنا جن کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے سو ’’ دھکا مکی ‘‘ پہ اتر آئی ہیں ، سرکشی کرتی ہیں اور انسان کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ ناجائز ذرائع کا استعمال کرے ۔ سو جائز خواہشات محض اس لیے ناجائز ہو جاتی ہیں کہ انسان نے اس کے حصول کے لیے منفی راہ استعمال کی ہوتی ہے ۔ خواہشات معیوب نہیں ہوتیں، اگر ایسا ہوتا تو خالق اکبر انھیں خلق ہی کیوں فرماتا ؟ اس نے خواہشات اس لیے پیدا کیں تاکہ وہ انسان کی آزمائش کر سکے۔ وہ تو جانتا ہے کہ ہم کیا ہیں ۔ ہاں مگر اس آزمائش سے وہ انسان کو آئینہ دکھاتا ہے کہ دیکھو تم کتنے پانی میں ہو؟۔
خواہش وہ منہ زور سواری ہے جو اکثر اپنے سوار کو اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔ یہ خواہشات ہی ہیں جو انسان سے عقل و خرد چھین لیتی ہیں۔ بھائی کو بھائی سے لڑا دیتی ہیں۔ قابیل کو قاتل بنا دیتی ہیں۔ بھائی سے بھائی کا خون کرا دیتی ہیں۔ یوسف علی نبینا کے بھائیوں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں کنویں میں گرا دیں۔ چند سکوں کے عوض بیچ دیں۔ خواہشات کا غلام بے دام ہو کر انسان منصب انسانیت سے گر جاتا ہے۔ بھوک پیاس، پیسہ، شہرت، عزت، دولت، اختیار ، طاقت، سکون، عہدے کی خاطر انسان اپنے دین کا سودا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، اپنا ایمان بیچ کھاتا ہے۔ ایسے ایسے کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے کہ جس بارے ایک دوسرا انسان شاید سوچ بھی نہ سکے۔ تاریخ کے صفحات بادشاہوں کی فتوحات کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ممکنہ خدشات کے پیش نظر بھائی اقتدار حاصل کرنے کے بعد پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اپنے بھائیوں کو مروا ڈالتا ہے ۔ اسے خدشہ ہوتا ہے کہیں وہ ان کے خلاف علم بغاوت نہ اٹھا لے ۔ ماں جایا پرایا ہو جاتا ہے۔ سو خون کی سرخی سفیدی میں بدل جاتی ہے اور بھائی بھائی کی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ انسان ہوا و ہوس کے نتیجے میں حیا سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اس کی نظر میں اس کی خواہشات اتنا بڑا مقام پا لیتی ہیں کہ وہ ان کے حصول کی کوشش میں منصب شرافت سے گر جاتا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان ’’ ثمن قلیلا ‘‘ کے لیے ’’ فوزا عظیما‘‘ کو چھوڑ دیتا ہے۔ اور یوں خسارے کی فصل کاٹتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ منفعت کا طالب ہوتا ہے ، خساری میں پڑ جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ گھاٹے کے گھاٹ سے پانی نہیں پینا چاہتا ، ذلت کے گھونٹ پینے لگتا ہے ۔ خسارے کے جام لنڈھانے لگتا ہے ۔ ابدی فائدے کو چھوڑ کر وقتی لذت کی زلفوں کا اسیر ہو جاتا ہے ۔
خواہشات کا مرکز نفس انسانی ہے ۔ جو ہمہ وقت شیطان کی نظروں میں رہتا ہے ۔ کسی عارف نے کیا خوب صورت بات کی ہے
’’ نفس انسان کا کم ظرف دوست ہے ، اس پر جتنا احسان کیا جائے اس کی سرکشی بڑھتی چلی جاتی ہے‘‘۔
اس پر کاٹھی ڈالنا ضروری ہے۔ زہد سے اس کو قابو کیا جا سکتا ہے ۔ زہد کا رستہ بڑا کٹھن راستہ ہے ۔ انسان چل پڑے تو وہ وہ نہ صرف ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے بلکہ خواہشات کو اپنی ٹھوکروں پہ رکھ لیتا ہے۔
آخری بات یہ کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ابدی منفعت کیا ہے اور ابدی خسارہ کس چیز کا نام ہے۔ سو جس کام سے بچنا تھا اسے اختیار کرتا، جس کو اختیار کرنا تھا، اس سے کنی کترانے لگتا ہے۔ پھر ہوش تب آتا ہے جب کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا ۔ پھر وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے ۔
کسی نے سچ کہا ہے کامیابی کا تعلق خارج سے نہیں ہوتا باطن سے ہوتا ہے۔ اور باطنی کامیابی ہی ابدی کامیابی ہے، اخروی سعادت ہے۔

جواب دیں

Back to top button