Column

تیز رفتار تباہی

تحریر : سیدہ عنبرین
جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا ہے، ان کی جانب سے یہ پیشکش پہلی مرتبہ نہیں کی گئی بلکہ ملک میں جب بھی عام انتخابات کا مرحلہ درپیش ہوا جماعت کے قائدین نے ناصرف اپنے آپ کو قوم کے سامنے پیش کیا بلکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی کہا کہ وہ بھی سامنے آئیں اور احتساب کی بات کریں۔ تاریخ شاہد ہے کوئی بھی ملکی سطح کی جماعت کا دعویٰ رکھنے والی سیاسی جماعت یہ حوصلہ نہ کر سکی، بلکہ جواباً کہا گیا کہ ہمارا ووٹر ہمارا احتساب کرے گا، ہم ووٹر کا فیصلہ تسلیم کرینگے، ہمارے ملک میں ووٹرز سے احتساب کرانے کا ڈھونگ رچانے والوں کو جب ووٹرز نے مسترد کیا تو پھر ایک نئی تاویل گھڑ لی گئی کہ ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ کی طرح کاروباری طبقے سے اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، یہ طبقہ اس کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، اس مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اور کاروباری طبقے کو ساتھ ملانے کیلئے جو نعرہ دیا گیا ہے وہ افسوسناک ہے، نصف دہائی قبل کوئی سوچ بھی نہ سکتا ہوگا کہ ہر منفی بات ووٹرز کو لبھانے کیلئے دوا سمجھی جائیگی۔ جناب نواز شریف نے اپنی پرانی کاروباری پالیسیوں کو دہراتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ بزنس مین کمیونٹی سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ کاروبار بالخصوص انڈسٹری میں روپیہ لگانے والوں سے نہیں پوچھا جائیگا کہ یہ روپیہ کہاں سے آرہا ہے، گویا وہ کہہ رہے ہیں ہم کسی کو نہ پوچھیں گے کوئی ہمیں نہ پوچھے، انہیں اور ان کی جماعت کے ذمہ داروں کو یقین ہے کہ بزنس مین ایک مرتبہ پھر بڑھ چڑھ کر ان کے پیچھے چلیں گے اور کامیابی ان کے قدموں میں ڈال دیں گے، اس خوش فہمی کا شکار منصوبہ بندی کرنے والے بھول رہے ہیں کہ پورے ملک میں چھوٹے بڑے تمام کاروباری افراد شمار کر لئے جائیں تو ان کی تعداد مجموعی ووٹرز کا دسواں حصہ بھی نہیں بنتی۔ کاروباری طبقہ تو یہ سوچ کر نہال ہوا جاتا ہے کہ شریف حکومت آنے کے بعد انہیں ہمیشہ کی طرح وہ سب کچھ کرنے کی اجازت ہوگی جسے کوئی مہذب معاشرہ اور بالخصوص مسلم معاشرہ جائز نہیں سمجھتا۔ ملک بھر میں خوف خدا رکھنے والے مٹھی بھر تاجر طبقے کو چھوڑ دیں تو زیادہ افراد کاروبار نہیں کرتے، وہ گھنائونے کاروبار سے زندگی کی ابتدا کرتے ہیں اور اسی سیاہ کاری کے سبب دولت کے انبار جمع کرنے کے بعد وہ عملی سیاست میں قدم رکھتے ہیں۔ آج ملک بھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز خالص میسر نہیں حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات کے نام پر جو کچھ مارکیٹ میں دستیاب ہے اس کی حقیقت سامنے آنے پر ہر انسان جعلی ادویات کے ہاتھوں مرنے کی بجائے چاہے گا کہ وہ بلا علاج ہی
اس دنیا سے رخصت ہوجائے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی گاڑی یا مشینری جو بیس سے پچاس برس بلا مینٹیس اخراجات کے چلتی ہے پاکستان میں پانچ سے سات برس میں سکریپ میں تبدیل ہوجاتی ہے کیونکہ فیول بھی خالص دستیاب نہیں، ہر پردے پر لکھا ہوگا اور مہر ثبت ہوگی کہ یہ جاپان کا بنا ہے لیکن یہ اس جاپان کا نہیں ہوگا جو دو ایٹم بم کھانے اور مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہوا، اس نے دیانتداری کے زریں اصول کو پلے باندھ کر زندگی وہیں سے شروع کی جہاں وہ ختم ہوگئی تھی۔ میڈان جاپان مارکہ مال ہر شہر کی ہر گلی میں تیار ہوتا ہے لیکن مجال ہے کبھی کوئی سرکار کی گرفت میں آیا ہو اور نشان عبرت بنا ہو۔ اب جبکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ پالیسی سٹیٹمنٹ دے چکے ہیں کہ کسی صنعتکار سے سرمائے کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا تو اندازہ کیجئے اس سے انڈسٹری میں مثبت رجحان آئے گا یا منفی رجحان۔ دنیا اس بیان کو کس طرح لیتی ہے کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں لہٰذا امکان نہیں اب کاروبار میں ڈرگ کے ساتھ ساتھ مختلف سیاہ دھندوں سے کمایا گیا روپیہ آئے گا، کاروباری طبقہ صرف کالا دھن انڈسٹری میں لگا کر خاموش نہیں ہوجاتا، وہ اس سے کئی کالے کاروبار شروع کرتا ہے۔ پھر اپنے سیاہ کاروبار کو محفوظ کرنے کیلئے کئی چھتریاں بھی حاصل کرتا ہے۔ اس کا گزارا
ایک چھتری سے نہیں ہوتا، ہمارے آس پاس ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں۔ پراپرٹی کے نام پر کراچی سے خیبر تک لوٹ مار کرنے والے ایک خاندان نے شہرت دوام حاصل کرلی۔ وہ گھروں، فلیٹوں اور کمرشل دکانوں کے نام پر ہزاروں افراد کو لوٹ چکے، کوئی ان پر ہاتھ نہ ڈال سکا، حوصلے بڑھ گئے تو انہوں نے بعض اہم ترین شخصیات کی اعانت سے اداروں کو لوٹنا شروع کر دیا، جب اندازہ ہوا کہ شاید اب قانون حرکت میں آجائے تو ملک سے باہر بھاگ گئے، پورے خاندان کے ہر مرد و زن تک نے متعدد ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی تھی، قانون ان کے تعاقب میں رہا لیکن اسی طرح جیسے کمسن سہیلیاں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں، قانون اس خاندان کا کچھ نہ بگاڑ سکا، ایک اہم ترین قانونی شخصیت نے اس کرپٹ ترین خاندان سے رشتہ داری گانٹھ کر اسے مزید تحفظ فراہم کیا، حلال و حرام کی تمیز ختم ہونے اور کالے دھن کی طرف سے آنکھیں بند رکھنے کا عندیہ دینے کے بعد معاشرے اور ملک کا مستقبل کیا ہوگا سوچ کر خوف آتا ہے، ایک سیاسی رہنما نے اپنے اس بیان کے جاری کرنے کے بعد مزید کہا کہ ساری دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے، سب اسی طرح کرتے ہیں، کاش انہیں ادراک ہوتا کہ وہ تمام ملک اور معاشرے جن سے یہ سب کچھ منسوب کیا جارہا ہے آج کھڑے کہاں ہیں، کیا وہاں اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے، قریب ترین مثال یو اے ای کی دی جاتی ہے، ہر چوک میں موجود مسجد، مندر، شراب خانے اور قحبہ خانے کو ایک ہی صف میں تعمیر کر دینے والوں کا حال وہاں جاکر تو دیکھیں، کوئی ویرانی سی ویرانی ہے، آٹھ ریاستوں میں سے نصف میں تو ہُو کا عالم ہے، ہزاروں کثیر المنزلہ عمارتیں ہیں جن میں لاکھوں اپارٹمنٹ موجود ہیں مگر مکین کہیں کوئی نہیں، خیر و برکت اڑ چکی ہے، کچھ عجب نہیں آئندہ چند برسوں میں یہ عمارتیں بنا استعمال ہی ملبہ بن جائیں، کوئی کب تک ان بلند بالا عمارتوں اور شہروں کو چاٹ چاٹ کر جئے گا، حقیقی ترقی کیلئے حقیقت پسندانہ سوچ کا ہونا ضروری ہے، کاروباری انتخابی نعرہ، تیز رفتاری سے تباہی کی طرف لے جائیگا۔

جواب دیں

Back to top button