ورلڈ کپ کا بخار بھی اتر گیا

یاور عباس
کرکٹ دنیا کا ایک مقبول کھیل ہے، شائقین کرکٹ کو ورلڈ کپ کا انتظار رہتا ہے، مختلف ملکوں میں لوگ کرکٹ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، گلی کوچوں میں بچے، بڑے کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کھیلوں کے میدان میں زیادہ تر کرکٹ ہی کھیلی جاتی ہے۔ 1952میں پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز ہوا۔ 1980ء تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ 2000 اور2012 ء میں ایشیاء کپ جیتا۔2009ء میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ 2017ء میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی حاصل کی۔1992ء میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تو عوام میں کرکٹ کا کھیل بے پناہ مقبول ہوا، گلی کوچوں میں بچوں کے ہاتھ میں بیٹ بال نظر آنے لگے، چھوٹے چھوٹے پلاٹ بھی کرکٹ گرائونڈ کا منظر پیش کرنے لگے، نوجوانوں کی فارغ اوقات میں واحد تفریح کا ذریعہ کرکٹ ہی نظر آتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گائوں میں بھی میچ ہونے لگے اور مختلف ٹورنامنٹس کا انعقاد معمول بن گیا۔ شہریوں میں کرکٹ اکیڈمیاں بن گئیں، سپورٹس کی شاپس پر کھیلوں کے سامان کے ساتھ ساتھ انعامات کے لیے میڈلز اور کپ کی فروخت بھی بڑھ گئی، ہر کوئی عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، عبدالقادر، سلیم ملک جیسا کھلاڑی بننے کا خواہش مند تھا، پھر ہر ورلڈ کپ کے موقع پر قوم اس امید سے سارے کام کاج چھوڑ کر کرکٹ میچ دیکھتی تھی کہ شاید یہ ورلڈ کپ بھی ہم نے ہی جیتنا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ سب سے زیادہ دلچسپ معرکہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے جب کبھی ٹاکرا ہوتا تو اس دن پورا پاکستان سنسان دکھائی دیتا ہر کوئی ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتا لوگ اس مقابلہ کو صرف کانٹے دار مقابلہ ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ جنگ جیسا ماحول پیدا کر لیتے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے بھارت سے میچ ہر حال میں جیتنا ہے پاکستانی ٹیم کی ہزار غلطیوں کے باوجود اگر ٹیم انڈیا سے میچ جاتی تو سابقہ تمام غلطیاں معاف ہوکر قوم سڑکوں پر نکل آتی اور وہ خوشیاں مناتی کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی، پاک بھارت میچ سے پاکستانی اور انڈین عوام ہی نہیں بلکہ ورلڈ کپ، ایشیا کپ، ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے تمام میچز میں سے اہم ترین ٹاکرا پاک بھارت کا ہی ہوتا تھا ، خالی گرائونڈ بھر جاتے اور بالخصوص پاکستان بھارت میچ کے لیے بڑے سے بڑے گرائونڈ کا انتخاب کیا جاتا تاکہ زیادہ سے زیادہ شائقین کرکٹ کو سٹیڈیم میں جانے کا موقع مل سکے، آئی سی سی کے لیے بھی یہ میچ مالی طور پر بڑی اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا۔1962سے 1977تک پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگوں کی وجہ سے کرکٹ نہ کھیلی جا سکی۔ 1999ء میں کارگل جنگ اور2008ء میں ممبئی حملوں کے باعث پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کے دروازے بھی بند ہوگئے ۔
1992سے اب تک ورلڈ کپ میچز میں بھارت پاکستان کو مسلسل شکست دیتا آرہا ہے صرف2021ء میں پاکستان بھارت کیخلاف جیت سکا۔
پاکستانی ٹیم کو شاہین، گرین شرٹس ، ٹائیگرز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1992کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کی کامیابی کی وجہ لوگ نہ صرف کرکٹ کو بے حد پسند کرنے لگے بلکہ کرکٹرز سے بھی لوگ محبت کرنے لگے ، 1992کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان عمران خاں نے جب فلاحی منصوبہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کا آغاز کیا تو لوگوں نے بے پناہ فنڈز دئیے ، پھر میدان سیاست میں قدم رکھا تو ملک میں 40سالوں سے حکمرانی کرنے والی دو بڑی جماعتوں کے مقابلہ میں عمران خاں وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچے اور پھر وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد وہ عوام میں بے حد مقبول ہوگئے، سانحہ 9مئی کے بعد انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے مگر اب بھی عوامی سروے میں ان کی مقبولیت میں کوئی خاص کمی واقعی نہیں ہورہی۔ عمران خاں کے بعد شاہد آفریدی ، شعیب اختر اور اب بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی ، محمد عامر مقبول ترین کھلاڑی ہیں۔ 1999ء میں پاکستان رنر اپ رہا۔ 1979،1983،1987،2011ء میں چار دفعہ پاکستان ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکا۔ جبکہ 1996،2015 میں دو دفعہ پاکستان کوارٹر فائنل تک پہنچ گیا۔ 2009ء لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے اور کوئی ٹیم پاکستان آنے کو تیار نہ ہوئی ۔ پھر کوئی 11سال بعد زمبابوے کی ٹیم نے پاکستان آکر کرکٹ میچ کھیلے اور یوں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی وگرنہ پاکستان کو پی ایس ایل بھی یو اے ای میں جاکر کھیلنا پڑتا تھا۔
ورلڈ کپ 2023ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، آسٹریلیا نے چھٹی بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم اور ان کی پوری مینجمنٹ یقینا مبارکباد کی مستحق ہے۔ ورلڈ کپ 2023کے میچز میں پاکستان نیدر لینڈز، سری لنکا، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش سے جیت سکا جبکہ انڈیا، آسٹریلیا، سائوتھ افریقہ، افغانستان، انگلینڈ سے شکست کھا گیا اور یوں سیمی فائنل تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکا۔ شکست کے بعد پاکستان کی تمام تر ہمدردیاں بھی آسٹریلیا کے ساتھ ہی تھیں کہ بھارت کو فائنل کسی صورت نہیں جیتنا چاہیے حالانکہ کھیل میں سیاست اور دشمنی کا عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ پوری دنیا میں گرائونڈ غیر سیاسی ہوں تو کھیل کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ حالات پاکستان اور افغانستان کے خراب ہوں تو میچ کے موقع پر بھی شائقین حالت جنگ بنا دیتے ہیں، خدارا کھیل کو کھیل کے میدان تک ہی رہنے دیں، اسے قومی پالیسیوں کے ساتھ مشروط نہ کریں مزہ تو تب ہے کہ کھیل اتنا مضبوط کھیلیں کہ دنیا بھر کی ٹیموں کو آسٹریلیا کی طرح چاروں شانے چت کرتے جائیں اور ہر میچ میں ہر ٹورنامنٹ میں فتح کے جھنڈے گاڑیں، دوسروں کے لیے بددعائوں کی عادت چھوڑ دیں، محنت اور اللہ کی نصرت پر بھروسہ رکھیں۔ کراچی سے ایک مایہ ناز علمی، ادبی شخصیت اکرم کنجاہی نے پوسٹ بھیجی جس میں آسٹریلیا کی فتح کے بعد آسٹریلین ممتاز کھلاڑی رکی پونٹنگ نے کہا کہ ہم کرکٹ اکیڈمی میں عمران خان کے دور کپتانی کو پڑھاتے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں شاید کرکٹ کے کھیل کی طرف توجہ اس لیے بھی نہیں دی گئیں کہ کہیں یہ کھلاڑی عوام میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد سیاست کے میدان میں آکر اقتدار کے ایوانوں تک نہ پہنچ جائیں۔ کرکٹ کی بحالی کے لیے کرکٹ اکیڈمیاں بنانے کی ضرورت ہے، تحصیل سطح پر سپورٹس گرائونڈ بنانے ہوںگے، قومی کرکٹ ٹیم میں سلیکشن خالصتاً میرٹ پر ہونی چاہیے۔ چیئرمین پی سی بی کا عہدہ بھی سیاسی تقرری نہیں ہونا چاہیے ۔ 2023ء کے ورلڈ کپ میچز میں ملک کے معاشی، سیاسی بحرانوں کے باعث یا پھر غربت مہنگائی، بے روزگاری کے باعث عوام میں میچ دیکھنے کے لیے وہ جوش و خروش نہیں دیکھا گیا، پاکستان کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر سوالیہ نشان اپنی جگہ مگر سیمی فائنل سے پہلے ہی شکست سے عوام کو ورلڈ کپ کا بخار اتر گیا تھا۔ اب اگلے ورلڈ کپ کی تیاری کریں۔





