Column

کیمرے کی آنکھ سے محافظوں کے کردار عیاں

محمد ناصر شریف
اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق ؓ کا زمانہ ایک ایسا عہد زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے، حضرت عمر فاروقؓ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دیئے اور بعد ازاں بہت سی اصلاحات نافذ کیں، ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن وامان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار بھی ملا ،حضرت عمر فاروقؓ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی اس سے پہلی شہروں اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے، حضرت عمر فاروقؓ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو ’’ صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے، حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابوہریرہؓ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دیئے تاکہ دُکاندار ناپ تول میں دھوکہ نہ دیں ،کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنائے ،جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے ،اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت عبداللہ بن عتبہ ؓ کو بازار کی نگرانی کے لئے مقرر کیا،حضرت عمر فاروقؓ اور دیگر خلفاء راشدین ؓ کے دور میں امن وامان قائم تھا،ہر محکمہ نہایت ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ملک وملت کی خدمت کیا کرتا تھا ، محکمہ پولیس کو عوام دوست ، ہمدرد اور خدمت گزار مانا جاتا تھا ،ان کی موجودگی میں لوگ شریروں کے شر سے بے خوف ہوکر اپنے کام دھندے میں مشغول رہتے تھے،پولیس درحقیقت عوام کے جان ومال کی نہ صرف محافظ تھی بلکہ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر لوگوں کی جان بچایا کرتی تھی ۔
موجودہ دور میں پولیس دنیا کے ہر ملک میں پائی جاتی ہے اور اس کا ایک باضابطہ محکمہ ہے ،پولیس میں بھرتی کے لئے باضابطہ شرائط قواعد موجود ہیں ، اس کے لئے مستقل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ پولیس کا تصور رومن ،یونانی یاقدیم چینی بادشاہت میں کسی نا کسی صورت میں موجود تھا ، کہا جاتا ہے کہ پولیس فورس سب سے پہلے فرانس میں اور اس کے بعد انگلینڈ میں بنائی گئی ۔عرب اور یورپ کے بہت سے ممالک میں آج بھی پولیس کو عوام کا دوست ماناجاتا ہے ، ان کے اور عوام کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، عوام پولیس کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتی ہے جیسے کسی قریبی دوست احباب سے ملاقات کے وقت آدمی مسرت کا اظہار کرتا ہے، وہ عوام کے جان و مال کا مکمل تحفظ کرتی ہے اور ہر طرح کی تکلیف میں ان کی مدد و خدمت کرتی ہے ۔
ہمارے ملک اور پڑوسی ملک میں پولیس کا نام لے کر ڈرایا جاتا ہے، پولیس کی وردی دیکھ کر سب ہی سہم جاتے ہیں۔ محکمہ پولیس اور اس میں کام کرنے والوں کو اکثر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، انہیں رشوت خور اور عوام پر بے جا ظلم کرنے والا سمجھا جاتا ہے اور یہ بے جا بھی نہیں آئے روز ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جس میں پولیس کے جرائم میں ملوث ہونے اور مجرموں کی سرپرستی کے ناقابل تردید ثبوت ملتے ہیں۔
گزشتہ روز کراچی کے علاقہ اورنگی ٹائون میں تاجر شاکر خان کے گھر میں دو کروڑ روپے کی ڈکیتی ہوتی ہے ملزمان نے گھر سے 80تولہ سونا بھی لوٹا۔ اس ڈکیتی کی واردات میں زیر تربیت ڈی ایس پی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ زیر تربیت ڈی ایس پی کی اسپیشل پارٹی نے ڈیفنس میں پان کی دکان پر چھاپہ مار کر پونے دو لاکھ مالیت کی غیر ملکی سگریٹ قبضے میں لی تھی، ڈی ایس پی نے دکاندار کو 30ہزار روپے کی سگریٹ اور 50ہزار روپے دکاندار کو واپس کرتے ہوئے معاملے کو ختم کرنی کے لیے دبائو ڈالا تھا۔ زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق کو عدالت نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پیٹی بھائی کیلئے پولیس کی روایتی کرم نوازیاں، ملزم ڈی ایس پی کو عمیر طارق کیلئے سکیورٹی پروٹوکول، دو ایس ایچ اوز، دو ڈی ایس پی ملزم کے ہمراہ تھے۔ عمیر طارق سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے دوست سلیم باجاری کا بھتیجا ہے۔ ملزم کو پیش کرتے وقت کمرہ عدالت سے باقی سائلین کو باہر نکال دیا گیا۔ادھر ڈی آئی جی ویسٹ عاصم قائمخانی کی رپورٹ میں ایس ایس پی سائوتھ عمران قریشی اور ڈی ایس پی عمیر طارق کو قصور وار قرار دیتے ہوئے ہوشربا انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق کے ساتھ تعینات دو اہلکاروں اور پرائیوٹ ٹیم نے ڈکیتی کی ۔ پولیس یونیفارم میں ملبوس دو اہلکاروں اور پانچ پرائیوٹ افراد نے ایک کروڑ 90لاکھ روپے، ستر تولہ سونا و دیگر قیمتی سامان لوٹا، کیش اور 70تولے سونا اسکول بیگ میں رکھ کر ڈی ایس پی دفتر لے جایا گیا.زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق بجارانی خود گھر کے باہر موجود تھے، ایس ایس پی سائوتھ ایس ایس پی عمران قریشی کی جانب سے بھیجے گئے مخبروں کی اطلاع پر چھاپہ مارا، عمیر طارق گھر کے اندر چھاپے کے دوران ایس ایس پی سائوتھ کے دئیے پرائیوٹ افراد لیڈ کر رہے تھے، ڈی ایس پی کے مطابق کیش رقم، سونا، موبائل فون پرائیوٹ افراد کی جانب سے قبضے میں لئے گئے، پرائیویٹ افراد کو حساس ادارے کے اہلکار کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ پولیس پارٹی کے دفتر پہنچنے پر لاکر سے ایک کروڑ پانچ لاکھ اور زیورات ملے، ذاتی اسٹاف سے دو اہلکار خرم علی اور فیضان کو شاہین فورس کے تین اہلکاروں کے ہمراہ روانہ کیا۔ پانچ پرائیوٹ افراد نے گھر کی تلاشی لی، تو پولیس اہلکاروں نے گھر میں تحفظ دیا، چھاپے کے دوران ہمیں گھر کے باہر رکھا گیا، باکس کا لاک میرے دفتر میں توڑا گیا، ذاتی ڈرائیور سے وہ باکس باہر پھینکوادیا، سپاہی خرم کے مطابق پولیس موبائل او ویگو گاڑی ڈی ایس پی عمیر طارق کی ہدایت پر لے کر نکلے، ڈی ایس پی نے بتایا کہ حساس ادارے کی اطلاع پر چھاپہ مارنا ہے، ہمیں صرف گھر کو گھیرنا ہے،راستے میں ڈی ایس پی اور ماسک لگائے چار افراد کی جانب سے بریفنگ دی گئی، خرم علی ڈی ایس پی عمیر طارق چھاپے کے وقت گھر کے باہر اپنی گاڑی میں موجود تھے،ایس ایچ او ڈیفنس نے کہا کہ حساس ادارے کے چھاپے میں ملے سامان کو واپس کرنے کی ہدایت ایس ایس پی سائوتھ نی دی۔تھانے کے باہر ایس ایس پی سائوتھ عمران قریشی نے بیگ اور شاپنگ بیگ میرے حوالے کیا،تھانے میں تمام سامان شاکر اور وسیم کے حوالے کیا اور ایس ایس پی کو مطلع کیا، فائنڈنگ باکس میں موجود 85لاکھ روپے اور کچھ زیورات کا تاحال کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ یہ اسی محکمے کے ڈی آئی جی کی رپورٹ ہے جو واضح کر رہی ہے کہ اعلی سطح کے افسران جرائم میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ کے اس دور میں پولیس سمیت تمام محافظوں کا کردار کھل کر سامنے آرہا ہے۔ مذکورہ واقعے میں محافظوں نے اپنے طور پر تو پوری کوشش کرلی تھی اور تاجر کے گھر میں موجود کیمروں کی ریکارڈنگ بھی قبضے میں لے لی تھی لیکن گلی میں لگے دیگر کیمروں کی وجہ سے ملزمان پکڑ گئے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے تمام جرائم کی وارداتیں محافظوں کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں۔ جہاں امن و امان کے لیے آپریشن کے لیے محافظوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں وہیں ان کی جانب سے ظلم بھی ہوا۔ جس کی وجہ سے پولیس سمیت سیکیورٹی اداروں سے لوگوں کی محبت میں اضافے کے بجائے ان سے خوف اور نفرت کے جذبات بڑھ رہے ہی۔ اقربا پروری ،بدعنوانی، کرپشن، جرائم سہنے والے ایک آتش فشاں کی طرز پر بھرتے جارہے ہیں اور اگر یہ آتش فشاں پھٹا تو وہ سب کو بہا کر لے جائیگا۔عدالتوں سے بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ انصاف کریں کیونکہ جس طرح پولیس سے تحفظ کی توقع نہیں کی جاتی اسی طرح عدالتوں سے انصاف، حکمرانوں سے گورننس ، انتظامیہ سے خدمت کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ بس دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ان تمام اداروں سے اپنی پناہ میں رکھے۔۔ آمین

جواب دیں

Back to top button