Column

کیا 8فروری کو الیکشن ہونگے یا؟

نذیر احمد سندھو
سوال بڑا سیدھا ہے مجوزہ تاریخ کو الیکشن منعقد ہونگے اپنے وی لاگ کے لئے میں نے سروے کیا کسی کو یقین نہیں ہونگے سب گومگو کی حالت میں ہیں اور ایک ہی جواب دیتے ہیں اگر ہوئے تو ووٹ عمران کا۔ میرا دوسرا سوال اگر عمران کی پارٹی کو الیکشن میں اترنے ہی نہ دیا گیا تو ؟ جواب نہ دارد۔ الیکشن ہونگے سیاسی حالات شک و شبہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مانا تحریک انصاف کو الیکشن کمپین نہیں کرنے دی جا رہی مگر اور بھی پارٹیاں ہیں جن پر کوئی قدغن نہیں وہ بھی تو ایکٹو نظر نہیں آ رہیں۔ صرف یہی فضا سازگار بنائی جا رہی ہے ن لیگ کی حکومت بنے گی نواز شریف پکی ڈیل کرکے آئے ہیں۔ الیکشن کا انحصار ماضی کے اس دریچے کی طرف کھلتا ہے اگر تحریک انصاف کو حکومت دینا ہوتی تو چھینی کیوں جاتی۔ یہ قصہ 1987کے بعد لکھا گیا جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کرپشن الزامات پر گرا کر الیکشن کرائے گئے تو ہر طرف ایک ہی آواز تھی پیپلز پارٹی کو حکومت دینی ہوتی تو گرائی کیوں جاتی لہذا ن لیگ کو ووٹ ملے۔ ن لیگ کی حکومت 1989میں انہی الزامات پر گرا کر الیکشن کرائے گئے تو یہی آواز ن لیگ کے خلاف اور پیپلز پارٹی کی فیور میں میں سنی گئی۔ آجکل بھی ایسی ہی آواز ہر سو پھیلائی جا رہی ہے مگر رائے عامہ کا خیال ہے وقت بدل چکا ہے لوگوں کے شعور میں تبدیلی آ چکی ہے دوسرے دونوں پارٹیوں پر الزامات درست تھے عمران پر کسی قسم کے الزامات کو لوگ تسلیم ہی نہیں کرتے لہذا اب کی بار یہ فارمولا نہیں چل سکتا البتہ لسٹیں بنا کر حکومت بنانا ممکن تو ہے مگر زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گی۔85فیصد ووٹرز کی کی رائے تو عمران خان ہی تھا پارٹی بلے کا نشان محض مددگار ہونگے اگر نشان نہ بھی ملا تو جہاں عمران کہے گا اسی پر مہر لگے گی۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہے پولنگ دن نکلیں ضرور چاہے ن لیگ یا پی ڈی ایم کی کسی پارٹی کا جھنڈا لے کر پولنگ تک جانا پڑے ۔ میں متفق نہیں یہی تو پالیسی ہے ن لیگ اور ہینڈلرز کی الیکشن کے دن رونق ہو، ن لیگ کے کیمپ میں لوگ ن لیگ کے جھنڈوں سے نظر آئیں تاکہ دھاندلا کرکے میڈیا کے ذریعے ووٹرز کی تعداد سرکاری پارٹیوں کے جھنڈوں کی تعداد دکھا کر یہ تاثر بنایا جا سکے تحریک انصاف کو ووٹر چھوڑ چکا لوگ سرکاری پارٹیوں کیلئے آئے اور ووٹ لاڈلوں کو ڈالا تاکہ الیکشن کو شفاف کہا جا سکے۔ عمران کے چاہنے والوں سے التماس ہے بیشک پیسے لیں ٹرانسپورٹ لاڈلوں کی استعمال کریں تحریک انصاف کے جھنڈے چھپا کر لائیں اور پولنگ سٹیشن پر ہر طرف بہار تحریک انصاف کے جھنڈوں سے ہو۔ تا کہ دھاندلی کو پردہ نہ ملے۔ یہ تو تھی ووٹرز کی رائے اور کچھ لوگوں کا سیاسی مشورہ مگر میرے سے بھی لوگوں نے سوال کیا کہ ن لیگ سمیت پی ڈی ایم کی سب پارٹیاں مصدقہ کرپٹ ہیں اسٹیبلشمنٹ کا چھوٹا بڑا ہر مہرہ تسلیم کرتا ہے پی ڈی ایم کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے پھر اسٹیبلشمنٹ اس قدر ان کی پشت پناہی کیوں کر رہی ہے۔ میں نے سوال کرنے والوں سے کہا آپ کے سوال کا جواب کافی مشکل ہے مگر کچھ سمجھانے کی کوشش کرونگا۔ جواب کا پہلا پارٹ تو خفیہ ہی رہے گا مگر دیگر پارٹس کی تشریح کچھ یوں ہے۔ مقتدرہ کچھ فیصلے کر چکی ہے جس کیلئے ن لیگ خصوصاً نواز شریف موزوں ترین ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا امریکی دبائو ہے جس کے لئے عمران تو کسی صورت رضامند نہیں جبکہ نواز شہباز تیار ہیں مگر یہ کام نگران بھی کر سکتے ہیں۔ دوسرا آئین میں ترمیم کرکے احمدیوں کو پھر سے مسلم اکثریت کا حصہ بنانا ہے جو نگران نہیں کر سکتے نواز شریف اور ن لیگ پہلے بھی ان دونوں ایشوز کو امریکی خواہش کے مطابق حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں، گو کامیابی نہیں ملی مگر نیت واضح ہے، لہذا ان سے امید باندھی جا سکتی ہی۔ طالبان کے خلاف ہوائی اڈے امریکی استعمال میں دینا شرائط کا حصہ ہے جس کے لئے عمران کبھی بھی تیار نہیں۔ بھارت سے دوستی اور بھارتی فوج جو ایکسر سائز کے بہانے کشمیر بارڈر پر ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے کو واپس بھیجنا اہم ترین ایشو ہے جس کیلئے صرف نواز شریف ہی معاون ہو سکتا ہے ۔ نواز شریف کے مودی کے علاوہ دیگر کاروباری شخصیات سے گہرے کاروباری تعلقات ہیں یہ کاروباری شخصیات مودی پر بھی اثر انداز ہیں لہذا نواز شریف ایک موزوں ترین وزیر اعظم ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کی ضروریات کے لئے مناسب ہے۔ ریکوڈک کا سونا بھی اہم ترین ایشو ہے جس کی بندر بانٹ کرنا ہے ماضی میں سینڈک پراجیکٹ کا سونا چاندی پیتل بہت بڑی مقدار میں چین نکال چکا اور اس سے حاصل شدہ رقم قومی خزانے میں منتقل کرنے کی بجائے مقتدرہ میں جس دیانتداری سے نواز شریف نے تقسیم کی وہ بھی اس کی اہلیت کا حصہ ہے۔ نواز شریف کا ماضی، کرپشن کا طریقہ، کرپشن منی کی بین الاقوامی منی لانڈرنگ اور یورپ میں اثاثے خریدنے کا طریقہ کاربین الاقوامی کاروباری شخصیات سے تعلقات سب اس کی سی وی کا اہل ترین حصہ ہیں، یہ اہلیت اس کے مد مقابل آصف زرداری کے علاوہ اور کسی میں نہیں مگر وہ بھی نواز شریف کے درجے کا اہل نہیں۔ نواز شریف سے بھارت ، سعودی عرب، چین، قطر امریکہ، برطانیہ جیسے طاقتور ملک خوش ہیں اسرائیل انہیں بھرپور سپورٹ کرتا ہے۔ وہ تمام ممالک جو آئل گیس کے ایکسپورٹرز ہیں یا ٹیکنالوجی اور پراجیکٹس کیلئے ٹیکنیکل سروسز، پراجیکٹ کیلئے قرض دیتے ہیں ان سب کے لئے نواز شریف موزوں اور پسندیدہ ہے۔ عمران خان یا اس طرح کا کوئی بھی لیڈر جو قومی مفاد کی بات کریگا کرپشن کی دنیا کیلئے قابِل قبول نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ 77سال اقتدار کی نگران ہے، وہ قومی ترقی چاہتی بھی ہے تو اپنی نگرانی میں چاہے گی، وہ اپنی نگرانی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، امریکہ سپر پاور ہے وہ ہر ملک کو اپنی ضرورت کے مطابق چلاتی ہے، پاکستان میں امریکہ کو اسی طرح کا نظام سوٹ کرتا ہے، بات صرف امریکہ کی نہیں ہر سپر پاور کا رویہ ماضی میں بھی یہی رہا ہے اور مستقبل میں بھی تبدیل نہیں ہو گا صرف پالیسیوں میں کانٹ چھانٹ ہو گی۔ چین کو مستقبل کی سپر پاور جانا جاتا ہے ابھی سے اس کا رویہ امریکہ سے مختلف نہیں۔ چین نے ہمیں سامان حرب اور جنگی جہاز بیچے ہیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کی۔ زراعت میں بے مثال ترقی کی ہے مگر پاکستان کو زراعت کو ترقی دینے کا کوئی منصوبہ نہیں دیا پاک چین کوریڈور چین کی ضرورت ہے مگر بھاری قرض پاکستان پر لاد دیا یہی وتیرہ امریکہ کا ہے۔ کچھ نہ بدلا ہے نہ بدلے گا بدلائو تب آئیگا جب ہماری قیادت تبدیل ہو گی۔

جواب دیں

Back to top button