ماہی گیر اور غربت کی انتہا

روہیل اکبر
پاکستان میں ویسے تو ہر محنت کرنے والا طبقہ اس وقت غربت کی بلندیوں پر ہے لیکن ان میں سے بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو ہمیں سردیوں کی سرد راتوں میں مچھلی فراہم کرتا ہے، میں اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کی بات کرونگا۔ پاکستان میں ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کی کل آبادی میں سے79 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے، 90فیصد ماہی گیر بے گھر اور ان میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ساحلی پٹی کے ساتھ مقیم ماہی گیر کمیونٹیز شدید مشکلات کا شکار ہیں، جہاں سکول اور نہ ہی ہسپتال ہیں بلکہ انہیں مزدور کا درجہ بھی حاصل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیکیورٹی ہے نہ انشورنس اور تو اور بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے بھی محروم ہیں، اس مظلوم طبقے کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ لوگ مچھلی پکڑتے پکڑتے اکثر اپنی سمندری حدود بھی غلطی سے پار کر جاتے ہیں اور پھر کئی کئی سال دوسرے ممالک کی جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔ ان پر ہونے والے مظالم پر حکومت نے بھی چپ سادھ رکھی ہے، حالانکہ ماہی گیری پاکستان کے لیے بھاری زرمبادلہ کمانے والا ایک منافع بخش پیشہ ہے، تاہم ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ رہنے والے ماہی گیریوں کی کمیونٹیز زیادہ تر شدید مشکلات کا شکار ہیں اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے 79فیصد آبادی کو غریب قرار دیا ہے اور ان میں سے بھی 54فیصد غریب ترین طبقے میں آتے ہیں۔ ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے تقریبا 90فیصد باشندے بغیر کسی سہولت کے بکھری ہوئی بستیوں میں سرکنڈے کی جھاڑیوں میں رہتے ہیں۔ وسائل اور خدمات کی کمی کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر پڑتا ہے، جہاں اوسط خواندگی کی شرح مردوں کے لیے 47فیصد اور خواتین کے لیے 14فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ماہی گیری کے شعبے کی ترقی ہنر مند افراد کے بغیر ممکن نہیں، یہ لوگ پاکستان کے لیے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے، یہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ خواندگی، تربیت، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان افراد تک براہ راست رسائی حاصل کرے، کیونکہ ماہی گیر برادریوں کی معیشت اور معاش کا براہ راست تعلق ان کے ماحول سے ہے۔ اس وقت وزیر اعظم کا تعلق بلوچستان سے ہے اور چیئرمین سینیٹ کا تعلق بھی اسی صوبہ سے ہے، لیکن اسی صوبہ میں غربت بھی سب سے زیادہ ہے اور ماہی گیر تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا رہن سہن دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ لوگ آج کے جدید دور میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم زمانہ قدیم میں آگئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے سب سے پسماندہ ترین علاقوں کے غریب ماہی گیروں کی حالت پر فوری توجہ دے، خاص کر مینگروو کی دلدل، کریک اور فش فارمنگ کے علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ سب سے پہلے ان کمیونٹیز کو صحت کی حفاظت اور انشورنس فراہم کی جانی چاہیے، کیونکہ ان کی سرگرمیاں بہت سخت اور تھکا دینے والی ہیں، وہ سانپ کے کاٹنے، مچھلی کے کاٹنے اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، لیکن ان کے پینل پر کوئی ہسپتال نہیں ہے اور انہیں علاج کے لیے بھی دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے اور پیسے بھی اپنی جیب سے لگانے پڑتے ہیں، جبکہ ان کی کمائی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ ایک اور بات کہ ماہی گیروں کی ہمارے ہاں کوئی پہچان بھی نہیں ہے، انہیں کسانوں یا مزدوروں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں، تاکہ وہ بھی حکومتی سکمیوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بلوچستان حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ایک پالیسی منظور کی ہے کہ ماہی گیروں کو مزدور سمجھا جائے، تاہم پالیسی صرف ایک دستاویز ہے، جس پر عمل درآمد کا ابھی تک ماہی گیروں کو انتظار ہے۔ ماہی گیروں کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اب ان لوگوں کو مچھلیاں تلاش کرنے کے لیے گہرے سمندر میں جانا پڑتا ہے۔ مچھلیوں کے کم ہوتے ذخیرے نے ان کی زندگی کو بدتر بنا دیا ہے، کیونکہ ان کا خوراک اور آمدنی کے لیے مچھلیوں پر انحصار ہے اور ان کے پاس مچھلیاں پکڑنے کے کوئی جدید آلات بھی نہیں ہیں۔ ماہی گیر سمندری خوراک کی برآمد کے ذریعے ملک کو زرمبادلہ کمانے میں مدد کرتے ہیں، لیکن وہ برآمدات میں اضافہ کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ ان کی اپنی زندگیوں میں بہتری نہیں آرہی اور انہیں ان کی کوششوں کے مطابق منافع نہیں ملتا۔ ان لوگوں میں تربیت یافتہ اور ہنر مند پیشہ ور افراد کی بڑی کمی ہے اور حکومت ان کی یہ کمی دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی، اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے محکمے اور وزارت بھی کام کر رہی ہے، ماہی گیروں کا یہ طبقہ دن بدن مقروض اور بدحال ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کو ملکی بحری سرگرمیوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہنر مند پیشہ ور افراد کو تربیت اور تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر ماہی گیر بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں، مائیکرو فنانس اداروں کی طرف سے فراہم کردہ کریڈٹ سہولیات کے ذریعے ان کی ترقی کے مواقع کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ دوسرے ممالک میں ساحلی کمیونٹیز نے مائیکرو فنانس سہولیات تک رسائی کے ذریعے نمایاں طور پر فائدہ اٹھایا ہے، جس سے ان کے اثاثوں اور آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہی گیروں کی مدد کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے کامیاب پاکستان پروگرام شروع کیا، یہ پروگرام افراد کو مائیکرو قرضے کی پیشکش کرتا تھا، جس کی بدولت بینک ایسے مائیکرو فنانس اداروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں جو بینک سے محروم کمیونٹیز کو قرض دیتے تھے لیکن اب وہ بھی بند ہوچکے ہیں۔ ماہی گیروں کو حکومت گھر اور مچھلی پکڑنے کا جدید سامان فراہم کرے تو یہی طبقہ پاکستان کا خوشحال طبقہ بن سکتا ہے، جبکہ سمندری مچھلی سے پاکستان کے لوگ بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر کے ماہی گیروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام فورا شروع کیے جائیں تاکہ یہ لوگ بھی ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں، جبکہ پاکستان معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔ آبی زراعت کی پیداوار اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان مچھلی اور دیگر سمندری غذا کی مصنوعات کی پیداوار اور پروسیسنگ میں چینی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ماہی گیری کی صنعت میں بہتری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، آمدنی میں اضافہ ہوگا اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مجموعی طور پر ترقی ہوگی۔ ماہی گیری کی معیاری مصنوعات کو پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ دونوں شکلوں میں برآمد کیا جا سکے گا، عام طور پر چار قسم کے عملی فش کلچر کے نظام ہوتے ہیں جن میں پنجرے، کھلے تالاب، دوبارہ گردش کرنے والے نظام اور ریس ویز شامل ہیں، جنہیں تجارتی کھیتی کے کامیاب نظاموں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ 2022میں مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ کی مالیت 110بلین ڈالر تھی، جبکہ2032 کے اختتام تک 3.6فیصد کی کمپانڈ اینول گروتھ ریٹ حاصل کرنے کا امکان ہے۔ پاکستان اپنے معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔





