Column

اکیلا محسن نقوی کیا کیا کرے

رفیع صحرائی
صوبہ پنجاب اس وقت شدید ترین سموگ کی زد میں ہے۔ اس سلسلے میں لاہور اور ملتان میں نمبر ون کی دوڑ جاری ہے۔ دونوں شہر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی لاہور آگے تو ملتان دوسرے نمبر پرہوتا ہے اور کبھی ملتان ’’ کچیچی‘‘ وٹ کر زور لگاتا ہے تو لاہور کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ دونوں شہروں کے باسی اپنے اپنے شہر کو ’’ فاتح‘‘ بنانے کی جان توڑ کوشش اور محنت کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ملتان نے ایئر کوالٹی انڈیکس 470حاصل کر کے 406ایئر کوالٹی انڈیکس کے حامل لاہور کو پچھاڑ دیا تاہم لاہوریے کسی سے کم نہیں۔ نہ ہی وہ آسانی سے ہار مانتے ہیں۔ امید ہی نہیں ان پر یقین رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی ’’ حرکتوں‘‘ سے پہلی پوزیشن کا اعزاز دوبارہ حاصل کر لیں گے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی سموگ کے تدارک کے لیے جس جانفشانی اور دردِ دل کے ساتھ لگے ہوئے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔ دن رات میٹنگز اور عملی اقدامات میں مصروف محسن نقوی ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جو سموگ میں کمی یا خاتمے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں 28یا 29نومبر کو لاہور میں مصنوعی بارش برسا کر آلودہ فضا کو صاف ستھرا کرنا بھی ان کے زیرِ غور ہے۔ جناب محسن نقوی نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے کے دوران پنجاب کے دس آلودہ ترین اضلاع میں اتوار سمیت چار چھٹیاں کر کے ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔ گزشتہ ہفتے کے روز بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ مقصد یہ تھا سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم نہ ہو سکے، فیکٹریوں کی بندش سے ان کا دھواں فضا کو مزید آلودہ نہ کرے۔ عملی طور پر سمارٹ لاک ڈائون لگا کر سموگ کے تدارک کی کوشش کی گئی مگر افسوس کہ ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویّے نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ لاہور کے علاوہ قصور، گوجرانوالہ، ننکانہ، گجرات، شیخوپورہ اور حافظ آباد سمیت لاک ڈائون کے تمام اضلاع میں ٹریفک اپنے معمول کے مطابق چلتی رہی۔ سمارٹ لاک ڈائون یا سموگ ایمرجنسی پر عمل کرانے والوں نے دیگر محکموں کی طرح خود بھی چھٹیاں منائیں۔ عام شہریوں نے چھٹیوں کا ناجائز استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہوئے پکنک پروگرام ترتیب دے ڈالے جبکہ باقی لوگ خاندان سمیت سسرال پہنچ گئے۔ یوں سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ اگر افسران فیلڈ میں نکل کر متحرک ہو جاتے تو ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم بھی سموگ کے تدارک کے لیے انتہائی سنجیدہ ہیں مگر ان کے احکامات پر عمل ہوتے نظر نہیں آ رہا۔ جہاں تک عام شہریوں کا تعلق ہے تو وہ ہر خطرے سے لاپرواہ اور بے نیاز ہیں۔ ’’ غیر ذمہ داری‘‘ دہائیوں سے ہمارا قومی نعرہ بن چکی ہے۔ ہم خلوصِ دل اور صدقِ نیّت سے اس نعرے کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ دو روز قبل جناب محسن نقوی نے کئی گھنٹے طویل انسدادِ سموگ اقدامات کے لیے منعقد کیے گئے اجلاس کی صدارت کی جس میں ماہرینِ ماحولیات نے بریفنگ دی کہ موجودہ حالات میں سکولوں اور دفاتر میں چھٹی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اجلاس میں ایک ماہ کے لیے طلبہ و اساتذہ جبکہ ایک ہفتہ کے لیے تمام شہریوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ۔ مگر شہریوں نے حسبِ معمول پروا نہیں کی۔ سکولوں میں کافی حد تک ماسک کی پابندی کی جا رہی ہے۔ نگران وزیرِ اعلیٰ نے دورانِ تعمیر مٹی، ریت اور ملبہ پر چھڑکائو نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے کاشت کاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ فصلوں کی باقیات جلانے کی بجائے مناسب طریقے سے تلف کریں۔ جبکہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف انہوں نے بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سموگ میں کمی کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جائے جو انسانی بس میں ہے۔
دیکھا جائے تو جناب محسن نقوی پورے عظم کے ساتھ سموگ کے تدارک اور کمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ مگر یہ اکیلے ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ تمام سرکاری اداروں، این جی اوز اور ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ حکومتی اقدامات پر سو فیصد عمل کیا جائے۔ ہر شہری کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
سموگ کے تدارک کے لیے درج بالا تمام اقدامات شارٹ ٹرم بندوبست کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سلسلے میں لانگ ٹرم پالیسی اپنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جناب وزیرِ اعلیٰ کو چاہیے کہ صوبے بھر میں درخت لگانے کی بھرپور مہم شروع کرائیں۔ جس زمیندار کے فی ایکڑ پچاس درخت نہ لگے ہوں انہیں کسی قسم کی سہولت یا سبسڈی نہ دی جائے۔ انہیں فرد ملکیت بھی جاری نہ کی جائے۔ عوام کو گھروں میں درخت لگانے کی ترغیب دی جائے۔ سڑکوں، شاہراہوں اور نہروں کے کناروں پر سرکاری طور پر شجرکاری کی جائے۔ محکمہ ہائی وے، محکمہ نہر اور ضلع کونسل کے پاس عملہ موجود ہوتا ہے جو ان درختوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کر سکتا ہے۔ چالیس پچاس سال پہلے نہروں کے کنارے درختوں سے بھرے ہوئے تھے۔ تب عملہ محنتی اور ایماندار تھا جو ان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بہت جوکھم سے ان کی آبیاری بھی کرتا تھا۔ اب درختوں کو پانی لگانا مسئلہ نہیں ہے۔ واٹر ٹینکر کے ذریعے یہ مشکل آسان ہو گئی ہے۔ عملے کے علاوہ زمینداروں کے ذمے بھی ان درختوں کی حفاظت کا کام لگایا جائے۔ درخت کاٹنے پر سخت سزائیں دی جائیں۔ وفاقی حکومت بھی محکمہ ریلوے کی تعاون سے ہزاروں ایکڑ پھیلی ریلوے لائن کے دونوں اطراف شجرکاری کروا سکتی ہے۔ اس محکمے کے پاس بھی گینگ مین اور بیلداروں کی صورت میں عملہ موجود ہے جو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ان درختوں کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی کر سکتا ہے۔
سموگ اور سیلاب قدرتی آفات نہیں ہیں۔ یہ ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ اندھا دھند درخت کاٹ کر ہم نے ملک کے درجہ حرارت میں اضافہ کر لیا ہے جو گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس کے نتیجے میں سیلاب لانے کا سبب بنا ہے۔ درخت فضا کو صاف رکھنے اور آکسیجن کی مقدار کو متوازن رکھنے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ ہم درخت کاٹ کر سموگ لے آئے جس نے آکسیجن میں کمی کر کے ہمیں وینٹی لیٹر اور آکسیجن مشینوں کے حوالے کر دیا۔
اکیلے محسن نقوی پر تمام بوجھ نہ ڈالیے۔ آئیے! ہم سب اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کریں اور ملک کو سموگ و سیلاب کی نذر ہونے سے بچائیں۔

جواب دیں

Back to top button