بلوچستان میں صحتمندانہ سرگرمیوں کے رجحانات

طارق خان ترین
بلوچستان کو ہمیشہ وہاں سے ہٹ کیا جاتا ہے جہاں پر رسی کمزور ہو، غربت، بے روزگاری، معیشت کی زبوں حالی، سیاسی عدم استحکام اور پسماندگی ایسے سافٹ ٹارگٹ ہیں کہ جن سے دشمنان اسلام و پاکستان نے فائدہ اٹھاتے آ رہے ہے۔ سیاستدان، معیشت دان اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جب تک ملکر ملک کے لئے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ملی اور اخوت کے جذبے سے سرشار ہوکر کام نہیں کرینگے تب تک یہ سافٹ ٹارگٹ دشمنوں کی جانب سے لاک رہیں گے اور وہحملے کرتے رہینگے۔ پچھلی حکومت بلوچستان کو یقینی طور پر اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے جس نے 34ویں نیشنل گیمز کا انعقاد کرایا۔ 19سال بعد نیشنل گیمز کا انعقاد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ صوبہ امن و امان کی جانب گامزن ہے، جس میں ہماری سیکیورٹی فورسز، افواج پاکستان، ایف سی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کلیدی کردار رہا۔ باوجود اس کے کہ 9مئی کے واقعات نے پورے ملک کو سوگ میں ڈبو دیا تھا مگر پھر بھی مئی کے مہینے میں اس کا انعقاد کرایا گیا جس سے صوبے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نیشنل گیمز 2012میں بلوچستان میں ہونے تھے مگر سکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہاں سے اس ایونٹ کی جگہ کو تبدیل کرا کے لاہور میں انعقاد کرایا گیا۔ مگر آج بلوچستان میں امن و امان کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں، تب ہی قومی گیمز کامیابی کے ساتھ شروع ہوکر اختتام پذیر ہوئے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قومی گیمز یا پھر کسی نجی سطح کے کھیل ملک، صوبے اور علاقائی سطح پر یکجہتی اور اتحاد کی علامت ہوتے ہیں، ملک بھر کے کھلاڑی ایک دوسرے سے ملتے ہیں جس سے آپس میں محبت اور اخوت کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ منشیات سے دوری تب ہی ممکن ہے جب کھیلوں کے میدانوں کو آباد کیا جائے۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بروئے کار لانے کے لئے کھیل ہی وہ واحد شعبہ ہے کہ جن سے ملکی تعمیر و ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر حکومت کی جانب سے نسبتا کھیلوں کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں اکثریتی نوجوانوں کی آبادی کو نا قابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ نگران سپورٹس منسٹر بذات خود ایک نوجوان ہیں اور وہ انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ کس طرح سے نوجوانوں کو محکمہ کھیل کی جانب سے سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ کھیلوں کے میدانوں کو سیاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نہ صرف استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ان میدانوں میں موجود سہولیات کو بے تحاشہ نقصان بھی پہنچایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی مرمت پر حکومت کو اربوں روپے کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 26نومبر کو سپورٹس منسٹر جمال خان رئیسانی نے انقلابی اقدام اٹھاتے ہوئے کھیلوں کے میدانوں میں سیاسی جلسے کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ کھیلوں کے میدانوں کو کھیل تک ہی محدود کیا جائے گا ان میدانوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ جلسہ کرے۔ اس حوالے سے انتظامیہ بغیر کسی مشاورت کے کھیلوں کے میدان سیاست کے لئے استعمال ہونے کی اجازت دیتی تھی۔ جس کو اب روک دیا گیا ہے اور متعلقہ ادارے یعنی محکمہ کھیل کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سپورٹس سٹیڈیم استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔
صوبہ بلوچستان میں کھیلوں کا بڑھتا ہوا رجحان یقینی طور پر نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے ایک بہترین اور حوصلہ افزا امر ہے۔ صوبے کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے جہاں نوجوان ہر طرف سے پسا جارہا ہو، جن کی تخلیقی صلاحیتیں معاشرتی زوال کے سبب دبی جا رہی ہوں، وہاں سے صحتمندانہ سرگرمیوں کے انعقاد سے یہ طبقہ کھیلوں کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوانے کی بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہے۔ ایسے نوجوانوں کی داد رسی کے لئے تمام شراکت داروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ یہی نوجوان مستقبل میں آگے آکر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال سکے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک بہترین مستقبل فراہم کر سکے۔ بلوچستان میں کل آبادی کے 50فیصد سے زائد افراد نوجوان ہیں، بد قسمتی سے صوبے میں موجود رائج نظام سیاست نے انہیں نہ صرف تقسیم کر دیا ہے بلکہ انہیں ہر طرح سے بے راہ روی پر گامزن کرکے سیاسی پارٹیاں ان سے اپنے مفادات کی تکمیل کرا رہی ہے۔ یہ پارٹیاں جن کے اپنے جھنڈے ہیں، جن کے منشور ہیں تو صحیح مگر محض کاغذوں کی حد تک، جن کے لیڈران قائد اعظم محمد علی جناحؒ، ڈاکٹر علامہ اقبالؒ سے بڑے اور افضل تصور کئے جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ سیاسی پارٹی یا پھر گروہی مفادات سے بڑھ کر اپنی نسل کی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔
نگراں حکومت بنائی گئی جس میں بہت سے اچھے اور پڑھے لکھے لوگ شامل ہے۔ مگر بیوروکریسی میں وہی لوگ موجود ہیں جنہوں نے بجائے عوام کے انہی سیاستدانوں کی خدمت کی ہے، محض ٹرانسفرز کرنے سے حالات جوں کے توں ہی رہینگے۔ بہرحال محکمہ کھیل و ثقافت اور امور نوجوانان کے لئے میر سراج خان کے فرزند جمال خان رئیسانی کو تعینات کیا گیا ہے۔ جمال خان رئیسانی سب سے کم عمر ترین منسٹر کے طور پر اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک نوجوان ہونے کے ناطے انہیں نوجوانوں کے احساسات کا اچھی طرح ادراک ہے۔ انہوں نے اس کم عرصے میں اچھے اقدامات اٹھائے ہیں، جمال خان رئیسانی کا پہلا اقدام کہ انہوں اپنے آفس کے دروازے ہر عام و خاص کے لئے کھلے رکھے ہیں جہاں ان سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ ملنے آتے ہیں، بلکہ ان کے سامنے طرح طرح کے مسائل رکھے جاتے ہیں، جنہیں اسی وقت متعلقہ افسروں کو حل کرانے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ دوسری بات کہ جمال خان رئیسانی نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب راغب کرنے کے لئے حوصلہ افزا اقدامات اٹھا رہے ہیں، مثال کے طور پر جوانوں کے لئے ایسے پالیسیاں ہونی چاہئیں کہ جس سے کھیلوں کا فروغ ناگزیر ہوکر صوبے میں نوجوانوں کے لئے مختلف صحت مندانہ سرگرمیوں کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ اس طرح کی پالیسیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی نگران وزیر نے جب وہ ایڈوائزر برائے امور نوجواناں تھے، نے ان پالیسیوں پر کام کیا، آج ان پالیسیوں کو عملی شکل بھی پہنائی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف ضلعوں میں کرکٹ، فٹبال اور دیگر سرگرمیوں کا آغاز کیا جارہا ہے۔ جس کے انعقاد سے بہت سے مفید عوامل سامنے آئینگے۔
بلوچستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد آبادی کے تناسب سے 1.6فیصد، یعنی جون 2022تک دو لاکھ اسی ہزار ہے۔ جن میں عمر 20سال سے لیکر 40سال تک کے 80فیصد افراد شامل ہے۔ عادی افراد میں چرس، ہیروئن، افیوم، شیشہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریبا 90فیصد مواد افغانستان کے صوبے ہلمند سے چمن بارڈر کے ذریعے بلوچستان میں سمگل کیا جاتا ہے، جس کو روکنے کے لئے سابق حکومت کی کوششیں نہ ہونے کے برابر رہی۔ نگران حکومت کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹیز، عوام الناس، معاشرے کے دانشوروں، قبائلی مشران اور علما کو اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ صوبے سے منشیات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ مگر ضروری امر یہی ہوگا کہ نگران حکومت کو صوبائی اور علاقائی سطح پر کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یعنی کھیل کے ادارے کے لئے جتنی رقم بجٹ میں مختص کی گئی تھی انہیں کرپشن کی نظر نہ ہونے دے تاکہ جوانوں کے لئے کھیلوں کے میدان پھر سے آباد ہوسکے۔
پچھلی حکومت میں کھیل کے شعبے میں کرپشن کے سوا نوجوانوں کو اور کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس شعبے کو صرف ایک ہی طبقے کے لئے مختص کیا گیا، اسی وجہ سے اب اس شعبے میں اسی طبقے کے لوگ درجہ چہارم کے نوکریوں سے لیکر 17گریڈ کے افسر تک دیکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ سابق منسٹر کے دور میں بیرون ملک بھی وہی لوگ بھیجے گئے جن سے موصوف کا تعلق تھا۔ محکمہ کھیل و ثقافت اور امور نوجوانان کے پچھلے ادوار کا احتساب ضرور ہونا چاہیے، تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ آخر کیونکر بلوچستان میں نوجوان پس کر رہ گئے، کیونکر صوبے کے نوجوان ملک مخالف پراپیگنڈے کے شکار ہوئے۔ کون تھے وہ لوگ جنہوں نے اپنوں کو نوازا جبکہ باقیوں کو بالواسطہ منشیات کا عادی بنایا؟ بلوچستان میں ڈپریشن 43فیصد ہے، یہ کیونکر اتنا بڑھا، کون ہے اس کا ذمہ دار، موجودہ نگران حکومت اور احتساب کے اداروں کا یہ ایک کڑا امتحان ہے کہ باقی محکموں کے ساتھ ساتھ اس محکمے کا خصوصی طور پر آڈٹ کرائیں تاکہ جن لوگوں نے بلوچستان کے نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلا انہیں سخت سے سخت سزا دی جاسکے۔







