دو تہائی اکثریت

رفیع صحرائی
خبر ہے کہ میاں نواز شریف حکومت میں آنے کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ انہیں دو تہائی اکثریت ملی تھی مگر وہ اس اکثریت کو سنبھال نہ پائے تھے۔ عمران خان کی طرح وہ بھی اپنے آپ کو مقبول ترین عوامی لیڈر سمجھتے ہوئے بعض زمینی حقائق کو نظر انداز کر بیٹھے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ دو تہائی اکثریت بھی میاں نواز شریف کی حکومت کو نہ بچا سکی تھی۔ تب 58ٹو بی ایک انتہائی موثر، تیز دھار اور وزنی کلہاڑا ہوتا تھا جسے صدرِ مملکت نے تھاما ہوتا اور وہ جب چاہتے یا انہیں باور کرایا جاتا کہ موجودہ حکومت کرپٹ ہو چکی ہے، وہ دونوں ہاتھوں میں یہ کلہاڑا پکڑتے، سر سے بلند کرتے اور ایک ہی وار میں حکومت کو پاش پاش کر ڈالتے۔ تجربات نے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیاسی حریف سے حلیف بنا ڈالا، میثاقِ جمہوریت ہوا، شہید بے نظیر کا مشن جناب آصف زرداری نے پورا کیا اور میاں نواز شریف کے تعاون سے صدرِ مملکت کے ہاتھوں سے 58ٹو بی کا کلہاڑا چھین کر مولاجٹ کے گنڈاسے کی طرح زمین میں دفن کر دیا۔
اب ایک مرتبہ ملک کی معاشی بدحالی کے خاتمے اور اسے تعمیر و ترقی کی راستے پر گامزن کرنے کے لیے میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو کر پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آنا چاہتے ہیں۔ بعض آئینی ترامیم بھی یقیناً ان کے ذہن میں ہوں گی جنہیں جمہوریت کی بقا اور مضبوطی کے لیے وہ ضروری سمجھتے ہوں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صف بندی شروع کر دی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے علاوہ جی ڈی اے اور مزید چھوٹی سیاسی پارٹیاں بھی ممکنہ طور پر ان کی اتحادی ہوں گی۔ پی ڈی ایم حکومت کے خاتمے کے بعد بلوچستان میں پیپلز پارٹی اچانک تیز رفتاری سے فعال ہو گئی تھی اور وہاں کے سیاستدان جوق در جوق پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔ میاں نواز شریف کی ملک میں آمد کے ساتھ ہی بلوچستان میں صورتِ حال بدل گئی ہے۔ سیاست دانوں نے ہوائوں کا رخ بھانپ لیا ہے۔ میاں نواز شریف کے دورہ بلوچستان کے موقع پر باپ پارٹی کے علاوہ دیگر سیاستدانوں کی ان کے ساتھ ملاقاتوں اور میاں نواز شریف کی طرف رجحان نے بلوچستان میں نہ صرف مسلم لیگ ن کو زندہ کر دیا ہے بلکہ اسے اتحادیوں کی صورت میں ٹھنڈی ہوائیں بھی دی ہیں۔ کے پی میں جے یو آئی جیسی مضبوط پارٹی ان کی اتحادی ہو گی۔
جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے 2018ء کے الیکشن میں بھی یہاں پر مسلم لیگ ن کی پرفارمنس بہترین رہی تھی۔ اس نے پی ٹی آئی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ عمران خان کے اقتدار کے آخری دن تک مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول پارٹی تھی۔ عمران خان حکومت کی کمزور پرفارمنس نے ن لیگ کی مقبولیت میں مزید اضافہ کر دیا تھا مگر میاں شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت نے ان کی پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان سے دو چار کر دیا۔ عمران حکومت کے خلاف مہنگائی کا بیانیہ بنانے والی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے عوام کو تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے حوالے کر دیا۔ بلاول بھٹو زرداری جو نہ صرف پی ڈی ایم حکومت کا حصہ تھے بلکہ وزارتِ خارجہ جیسے اہم منصب پر بھی فائز رہے، انہوں نے عمران حکومت کے بالکل آخری دنوں میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ بھی کیا تھا۔ حکومت میں آنے کے بعد جناب بلاول زرداری نے 16ماہ تک وزارتِ خارجہ کے مزے لیے۔ اس تمام عرصے کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی مہنگائی کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ آج وہ ن لیگ کو مہنگائی لیگ کا نام دے رہے ہیں تو ان سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ’’ حضور! آپ تو خود اس حکومت کا حصہ تھے۔ تب آپ کے منہ میں گھنگھنیاں کیوں تھیں؟ جب عوام مہنگائی میں پس رہے تھے اور آپ حکومتی خرچے پر ساری دنیا کی سیر فرما رہے تھے‘‘۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی پنجاب کی۔ میاں نواز شریف کو اچھی طرح احساس ہو چکا ہے کہ عمران خان کے جیل میں جانے، پی ٹی آئی کی نمایاں لیڈرشپ کے منحرف ہونے اور پی ٹی آئی ورکرز پر کریک ڈائون کے باوجود بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک نہیں ٹوٹ سکا۔ پی ٹی آئی کے بطن سے جنم لینے والی استحکامِ پاکستان پارٹی بھی حسبِ توقع پی ٹی آئی ورکرز کی توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے لیے 2018ء والی کارکردگی کو دہرانا بھی شاید ممکن نہ رہے۔ چنانچہ میاں نواز شریف نے پنجاب میں الیکٹیبلز کے لیے پارٹی کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ میاں شہباز شریف اگر اپنے دور میں بلدیاتی اداروں کو فعال کر کے بلدیاتی الیکشن کروا دیتے تو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے شاید اسے موجودہ صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ وجوہات جو بھی ہوں پنجاب میں میاں شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت مسلم لیگ ن کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے الیکٹیبلز کے دروازے پر لے گئی ہے۔ میاں نواز شریف 2024 ء کا الیکشن صرف جیتنا نہیں چاہتے بلکہ دو تہائی اکثریت سے جیتنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے لیے نہ صرف بہت سنجیدہ ہیں بلکہ تیزی سے اس منصوبے کے مثبت نتائج کے حصول کے لیے عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم، باپ پارٹی، جی ڈی اے اور الیکٹیبلز کو ساتھ ملا کر وہ کتنے مضبوط ہو پائیں گے۔ اول الذکر تینوں پارٹیاں مشکل گھڑی آنے پر کتنی قابلِ اعتبار اور قابلِ اعتماد ہیں اس پر سوچنا ہو گا۔ الیکٹیبلز تو ویسے بھی ہماری سیاست کا وہ بدنما داغ ہیں جن کا نظریہ صرف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ وہ ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔





