دنیا کے ناپسندیدہ ممالک

حسیب بٹر ایڈووکیٹ
فلسطین کے معاملے کو ہم نے سنجیدہ نہیں لیا وگرنہ ہم محض مذمتوں سے کام نہ چلاتے بلکہ عملی اقدامات اٹھاتے یا اس حل کی عرب ممالک کو کوئی ٹھوس تجویز پیش کرتے۔ اسرائیل نے اس وقت فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، ایک ہی وقت میں کئی، کئی سو حملے فلسطین پر کئے جارہے ہیں۔ بموں میزائلوں سے لے کر فاسفورس تک اسرائیل فلسطین پر پھینک چکا ہے، اسرائیل کو کسی جنگ کے آداب کا پاس ہے نہ بچوں اور خواتین کا اسرائیل کو جنگی قوانین کا کیا علم ہوگا کہ یہ تو انسانی شکل میں ایسا اژدہا ہے جو روز بروز معصوم فلسطینیوں کو نگلتا جارہا ہے۔ اس جنگ میں چھ ہزار کے قریب کم سن بچے شہید ہو چکے ہیں۔ کیا صحافی، کیا شاعر، ادیب اور ڈاکٹرز ہر مکتبہ فکر کے افراد اپنے خاندانوں سمیت اسرائیل کی کھلی جارحیت کا شکار ہو چکے ہیں اور اس پر اسرائیلی وحشیوں کو کوئی ملال بھی نہیں بلکہ وہ اپنے کئے پر نہ صرف خوش ہے بلکہ وہ اسے دوام دینے کے مذموم ارادے رکھتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک خود کو جمہوریت پسند بھی کہتے ہیں اور وہ اسرائیل کی اس بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی کھلی حمایت کرتے بھی نظر آرہے ہیں اور انہیں کسی اخلاقی حالت کی پروا ہے نہ کسی کا ڈر یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے ظلم کا سلسلہ دراز کئے ہوئے حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے وحشی اور بدمست ہاتھی کے پائوں میں زنجیریں ہوتیں لیکن امریکہ برطانیہ فرانس سمیت یورپ کے دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوگئے اور یہ امر امت مسلمہ کے لئے باعث تشویش ہونا چاہئے کہ یہودیوں کے لئے دنیا ایک ہوگئی لیکن مسلمان ایک نہ ہوسکے نہ مسلم ممالک میں اتنی طاقت ہے کہ وہ دنیا کی اس بدمعاشی کے خلاف موثر آواز بلند کرتے اس کے برعکس ہم نے مذمتوں پر ہی اکتفا کئے رکھا ہے لیکن عالم اسلام کے لئے اس فکر کی ضرورت ہے کہ خدا نخواستہ اسرائیلی مظالم بڑھتے ہوئے دوسرے مسلم ممالک تک پھیل
سکتے ہیں، پھر یہ کیا کریں گے؟۔ تو ابھی سے اگر مسلم حکمران متحد ہو جائیں تو آئندہ کیلئے بھی اسرائیل سمیت دنیا کے لئے یہ پیغام واضح ہوجائے گا کہ مسلمان اکیلے نہیں لیکن مسلمانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا صیہونیوں کو پختہ یقین ہوچکا ہے وہ جانتے ہیں کہ آج کا مسلمان کس قدر کمزور ہے لیکن صیہونیوں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس قدر بہادر ہیں، ایک اکیلا فلسطین جس کی اپنی باقاعدہ کوئی فوج بھی نہیں اس کے خلاف یہ بحری بیڑے اور جوہری ہتھیار لے آئے ہیں۔ یہ تو بزدلی ہے کہ ایک کمزور ریاست کے خلاف دنیا کے طاقتور ممالک متحد ہو جائیں حالانکہ انہیں تو شرم آنی چاہئے، انہیں اپنی بہادری کا کوئی ٹیسٹ کرانا چاہئے کہ ایک مصرعہ یاد آگیا ۔
اک اکیلی فاختہ اور اژدہوں کا سلسلہ
دوسری جانب اسرائیلی مظالم کے خلاف حماس ابھی برسرپیکار نہیں ہے، حماس تو اسرائیلی حملوں کا صرف دفاع کرنے میں مصروف ہے، اگر حماس بھی اسرائیل پر حملہ کر دے تو صورتحال کچھ مختلف ہو،
حماس تو بے گناہ نہتے فلسطینیوں کیلئے خاموش ہے وگرنہ حماس کے جذبہ ایمانی کے سامنے یہ لمحہ بھر نہ ٹھہر سکیں۔ اس وقت رفح بارڈر پر کثیر تعداد میں فلسطینی بچے، خواتین، بیمار، زخمی قیام کئے ہوئے ہیں۔ حماس کو خدشہ ہے کہ اسرائیلی درندے کہیں ان پر بھی گولہ بارود نہ برسا دیں۔ اس لئے ابھی حماس کی طرف سے اسرائیلی فوج پر کوئی یلغار نہیں کی جارہی۔ ابھی حماس اسرائیلی حملوں کے دفاع میں مصروف ہے، اگر مسلم ممالک مل کر رفح بارڈر کھلوا دیں تو حماس کے مجاہد اسرائیلیوں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ ہمیشہ یاد رکھیں اور بیت المقدس بھی آزاد ہو لیکن اسرائیلیوں کی فطرت ہی ایسی ہے کہ یہ خونخوار انسانی خون کے پیاسے ہیں۔ یہ فلسطین کے پناہ گزین یا ہجرت کرنے والے شہریوں کو بھی نشانہ بنارہے ہیں، لیکن جو یہودی ہسپتال، سکول، چرچ تک کے تقدس کا خیال نہ رکھیں ان کی نظر میں پناہ گزین یا ہجرت کرنے والے ’ چہ معنی دارد‘ لیکن اسرائیلیوں کا معاون و مددگار امریکہ جو ویت نام اور افغانستان سے دم دبا کر بھاگا تھا، سے نفرت میں ازحد اضافہ ہوا ہے۔ امریکی سفارتکار امریکہ کو عرب ممالک کے لوگوں کی نفرت کا بتا رہے ہیں کہ ان میں امریکہ کے خلاف کس قدر غم و غصہ پایا جارہا ہے۔
امریکی سفارتکاروں نے بائیڈن انتظامیہ کو بتایا ہے کہ عرب ممالک میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اورکئی دہائیوں تک امریکہ کو عرب ممالک کے عوام کی نفرت کا سامنا رہے گا اور دنیا بھر میں اسرائیل کی طرف سے بے گناہ نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف مظاہرے کئے جا رہے ہیں، اس لئے بہت ممکن ہے کی اسرائیل اور امریکہ دنیا کے ناپسندیدہ ممالک بن کر رہ جائیں۔







