Column

شہیدوں کے لہو سے غداری

تحریر :سید عنبرین
سعودی عرب میں اسلامی تنظیم تعاون اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی اجلاس میں غزہ کی صورتحال پر بات ہورہی تھی، کانفرنس میں شریک ممالک کے سربراہان اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کے مختلف پہلوئوں پر اظہار خیال کر رہے تھے، سب نے تنازعے کے حل بھی پیش کئے، ٹھیک اس وقت اسرائیل نے فلسطینیوں پر بمباری میں اضافہ کر دیا، اس کا نشانہ ایک مرتبہ پھر غزہ کے زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسپتال تھے، مرکزی علاقے میں واقع ہسپتال میں کثیر تعداد میں وہ خواتین لائی گئی تھیں جو حاملہ تھیں، اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے شدید زخمی تھیں، سیکڑوں خواتین جانبر نہ ہوسکیں، ان کے بچے ہسپتال کے انکیوبیٹر میں رکھے ہوئے تھے، تازہ ترین حملے میں وہ نوزائیدہ بچے اور بیشتر مائیں زندگی کی بازی ہار گئے، غزہ کی طویل ناکہ بندی کے سبب ادویات و خوراک کی قلت ایک بڑا مسئلہ ہے جبکہ پانی و بجلی بھی وہاں موجود نہیں، ایسے میں جب ایک ایک پل بہت قیمتی اور محصورین کیلئے جاں گسل تھا، اسرائیل نے ہسپتالوں کو بمباری کا نشانہ بناکر یہ ثابت کیا کہ وہ کسی بین الاقوامی قاعدے ضابطے کا پابند نہیں ہے، اسے امن مذاکرات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ صرف اور صرف طاقت کے زور پر فلسطینیوں سے یہ علاقہ مکمل طور پر خالی کرا کے اس پر قابض ہونا چاہتا ہے تاکہ اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کر سکے، مقام افسوس کہ تمام مسلمان ملک اسرائیل کی جارحیت سے نمٹنے کیلئے کسی ایک ایجنڈے پر متفق نہ ہوسکے، ان کے نفاق سے اسرائیل کو تقویت ملی ہے، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر یہ اجلاس بہت تاخیر سے بلایا گیا جو بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے، اس عرصہ میں نہتے فلسطینی اپنے محدود ترین وسائل کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے، عالم اسلام جیسے پہلے مرحلے میں بیدار ہونا چاہیے تھا اسے اس وقت ہوش آیا جب یورپی ممالک میں بسنے والے غیر مسلم سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے، پورے یورپ میں اسرائیلی ہٹ دھرمی اور ظلم کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی، امریکہ کو براہ راست اس ظلم و بربریت کا ذمہ دار قرار دے کر اس کو اسرائیل کی حمایت اور امداد سے دست بردار ہونے کی بات سڑکوں اور چوراہوں کے بعد ترقی یافتہ ممالک کی پارلیمنٹ میں ہونے لگی تو مسلم ممالک میں حکومتی اکابرین انگڑائی لیکر بیدار ہوئے لیکن جس ردّعمل کی ان سے توقع کی جارہی تھی وہ نظر نہ آیا۔ ایران اور حماس نے مسئلے پر دوٹوک موقف اختیار کیا لیکن حسب سابق انہیں اپنے ہی دائیں بائیں کھڑے بھائیوں نے بالکل اسی طرح نااُمید کیا جس طرح وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ فلسطین مہینوں، ہفتوں میں نہیں دنوں میں آزاد ہوسکتا ہے، اس کے کسی بڑی جنگ کی نہیں صرف جنگ پر آمادہ نظر آنے کی ضرورت ہے، اسرائیل جب یہ تیور دیکھے گا تو لمحوں میں اقوام متحدہ کے بتائے اور منظور شدہ حل کے مطابق تصیفے کیلئے تیار ہوجائے گا، وہ اس وقت تک کسی قانون اور کسی عالمی فیصلے کو خاطر میں نہ لائے گا جب تک اسے نظر آئے گا کہ مسلمان ممالک کسی ایک نکتے پر یک سو ہونے کی بجائے اس کے ساتھ تعلقات بحال رکھنے میں زیادہ سنجیدہ ہیں، فلسطین میں امن یا اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ چھڑانا ان کی ترجیح دوئم ہے۔ مسلمان ممالک کا یہ مجرمانہ نفاق بحیثیت مجموعی اُمہ کیلئے نقصان کا باعث ہے، دنیا بھر میں جہاں جہاں غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، وہاں ہمیں یہی منافقت سے بھرپور رویہ نظر آیا، جس کے سبب مسلمان مرتے رہے، کوئی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسرائیل کے خلاف اگر متفقہ اقدام نہ کیا گیا تو اس کے ذمہ دار وہی ملک ہونگے جو آج تک مصلحت اندیش سے کام لیتے رہے ہیں، عرب لیگ کے چار ممالک کی طرف سے ان اقدامات سے اختلاف کیا گیا جو اس کانفرنس نے تجویز کئے تھے، اقدامات کے حق میں گیارہ ممالک ہم خیال تھے، ان ممالک کو اب ایک نئے انداز سے سوچنا ہوگا کہ مخالفت میں پیش پیش اور اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ممالک سے منہ موڑ لیا جائے، اب تو ان کے بائیکاٹ اور ان ملکوں سے اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا سوچنا چاہیے،کانفرنس میں شرکت کیلئے ایرانی صدر گیارہ برس بعد سعودی عرب آئے، اُنہوں نے قابل تعریف لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران سعودی تعلقات میں بہتری کیلئے بہت کام کیا اور سعودیوں کو باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کے ایک دوسرے سے فاصلے بڑھانے کا دونوں اسلامی ممالک کو نقصان ماضی میں بھی ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا، جب کہ اس کا فائدہ صرف لادینی طاقتوں کو ہوگا، ایران کے استدلال میں خاصا وزن ہے کہ
مسلمانوں کی طاقت کو تقسیم کرکے امریکہ و یورپ فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ ان کا ہدف معاشی، اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط ملکوں کو کمزور کرنے کے بعد انہیں مکمل طور پر تباہ کرنا ہے، فلسطین کے حق میں بیداری کی لہر یورپ کے علاوہ ان ممالک میں بھی دیکھنے میں آئی جو اس سے قبل آنکھیں بند کرکے امریکی و اسرائیلی استعمار کا ساتھ دیتے تھے لیکن اسرائیلی ظلم و بربریت نے ان کی آنکھیں کھول دیں، تصویر کا بھیانک اور دوسرا رخ دنیا کے سامنے لانے پر سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے، امریکی، برطانوی، بھارتی اور اسرائیلی میڈیا نے حقائق دنیا تک نہیں پہنچنے دیئے، اب جبکہ دنیا کے کونے کونے میں مظلوم فلسطینیوں کا پیغام اور ان کی حالت زار کے ثبوت پہنچ چکے ہیں، دنیا بھر کی رائے عامہ ان کے حق میں آواز اٹھا رہی ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ ذرا سی ہمت و جرأت کا مظاہرہ کریں اور ہمیشہ کیلئے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے ہمنوا اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل فلسطین کو دبا لیں گے، غزہ کو ان سے خالی کرا لیں گے اور اس پر قابض ہوکر سکون سے رہ سکیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ فلسطینی اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونگے، ان کی جدوجہد جاری رہے گی، انہیں حق نہ دیا گیا تو وہ افغانستان ماڈل جنگ آزادی کی طرف جاسکتے ہیں، فلسطینی مسلمانوں میں جذبہ جہاد کس قدر تازہ ہے دنیا نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ فلسطینیوں کی تیسری نسل میں یہ جذبہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دو چند ہورہا ہے، وہ یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوجائیں کہ دشمن کا دوست بھی ان کا دشمن ہے، اب اگلی لڑائی ان کے خلاف لڑنی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی امریکی و برطانوی کوششیں مکاری پر مبنی ہیں، وہ اسرائیل کو پہنچنے والے زبردست جانی و مالی نقصان کے بعد اس کی نڈھال سپاہ کو کچھ دیر کیلئے سستانے کا موقعہ مہیا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، فلسطینی مسئلے کا قطعی حل نہیں چاہتے ، مسلم اُمہ کو اس چال سے باخبر رہتے ہوئے اس جال سے بچنا چاہیے، جنگ بندی کی صرف وہ شرائط قبول ہونگی جو ایران اور حماس نے پیش کی ہیں۔ فلسطینی علاقوں کی آزادی، تباہ حال علاقوں کی تعمیر کی گارنٹی کے بغیر جنگ بندی شہیدوں کے لہو سے غداری کے سوا کچھ نہ ہوگی، ہر ملک کے کردار پر نظر رکھیں۔

جواب دیں

Back to top button