الیکشن پلیٹ میں سجا کے پیپلز پارٹی کو دئیے تو نتائج کیا ہونگے؟

تحریر : ایاز لطیف پلیجو
آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر سندھ کے جنرل الیکشنز کے نتائج ماضی کی طرح اس بار2024ء میں بھی پلیٹ میں سجا کے پیپلز پارٹی کو دے دئیے گئے تو اس کے سٹریٹیجک، سیاسی، سماجی، اقتصادی و معاشی نتائج کیا نکلیں گے؟۔ سندھ کی پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کی جانب سے یہ سمجھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سندھ میں پندرہ سالہ کرپشن، لوٹ مار، تباہی، غربت، افلاس، بیروزگاری و بدترین گورننس کے سسٹم کی اس ریاست، پارلیمان، وفاقی اداروں، عدلیہ و ای سی پی کو کوئی فکر نہیں، وہ یا تو مکمل لاتعلق ہیں، یا بذات خود پیپلز پارٹی کے سہولت کار و شیئر ہولڈرز ہیں، سندھ کے لوگ سمجھیں گے کہ صرف پنجاب کی اندرونی سیاسی لڑائی، ن لیگ و پی ٹی آئی مقابلے، پنجاب و کے پی کے کی نشستوں کی تعداد ہی وفاق و ریاست کے لئے معنی رکھتے ہیں، سندھ دراصل ملکی سیاسی ایجنڈا کا15سال سے حصہ ہی نہیں ہے، سندھ کے عام لوگوں، دیگر سیاسی جماعتوں، اتحادوں، قوم پرست و مذہبی جماعتوں سے جڑے ہوئے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا جائیگا کہ سندھ میں صرف دو ہی آپشن ہیں کہ یا پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں یا پاکستان کی وفاقی سیاست سی مکمل لاتعلقی کرکے کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔ نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، نگران حکومتوں، اداروں و عدلیہ کے جھکائو کی وجہ سے کسی بھی کرپٹ وزیر، افسر یا اسمبلی ممبر کو کوئی سزا نہ ملنے سے، لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کرپشن کے خلاف بیانات و اعلانات صرف سراب و دکھاوا ہیں، پیپلز پارٹی کی کرپشن سے کسی کو کوئی ایشو، کوئی شکایت نہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ سندھ کو معاشی طور پر مکمل تباہ و برباد کرنا ہی درحقیقت اصل منشا ہے۔ سمجھا جائے کہ پاکستان بحیثیت ایک ملک کے مکمل طور پر اپنے ایک اہم حصے سندھ کی ترقی، گورننس ، خوشحالی، میرٹ و شفافیت سے لاتعلق ہے۔ یہ تاثر عام ہوجائے گا کہ گزشتہ پندرہ سال سے الیکشن قریب آتے ہی، دکھاوے کے لیے چند ماہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے کے بعد، آخری لمحوں میں، اچھی آفر ملنے پر ڈیل و سودا ہمیشہ پیپلز پارٹی سے ہی کرلیا جاتا ہے، اس لیے سندھ سطح کی سیاسی پیش قدمیوں، اتحادوں، سیٹ ایڈجسٹ منٹس و سرگرمیوں کی، وفاقی سیاست کرنے کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ بیوروکریسی، عدلیہ، وڈیروں، صنعت کاروں و سول سوسائٹی کو یہ صاف میسیج جائے گا کہ سندھ میں اگر رہنا ہے تو جئے زرداری کہنا ہے، پیپلز پارٹی کے سب جائز و ناجائز کام مسلسل کرتے رہنے ہیں، کیونکہ سندھ کے حقیقی مطلق العنان بادشاہ وہی ہیں۔ بین الاقوامی طاقتوں، پڑوسی ممالک اور عالمی اداروں کو یہ واضع اور کلیئر میسیج جائے گا کہ باقی تینوں صوبوں میں تو کوئی نہ کوئی تبدیلی آتی رہے گی، مگر سندھ کے حکمران وہی کے وہی رہیں گے، اس لیے ہر حال میں و ہر شرط پر پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے جائیں۔ نواز لیگ و پی ٹی آئی کے ماضی کے اقتدار کے دوران سندھ سے مکمل لاتعلقی و پیپلز پارٹی کی خوشنودی کے لیے مستقل چشم براہ ہونے سے یہ پیغام دیا جا چکا ہے کہ ان کے اقتدار میں کابینہ کی فیصلہ سازی و مشاورت میں، ترقیاتی منصوبوں میں سندھ کے عوام کی خواہشات، خدشے، سندھ کی ترقی و گورننس کوئی معنی نہیں رکھتے، وہ صرف چند وڈیروں یا الیکٹیبلز میں دکھاوے کے لیے عارضی دلچسپی لیکر پھر سندھ کو پیپلز پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سندھ کا بیروزگاری، اقربا پروری، مہنگائی، انتہاپسندی، دہشتگری و غربت کا مارا ہوا برباد شدہ نوجوان، بنگالیون کی طرح یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا جائیگا کہ سندھ میں میرٹ، روزگار، تعلیم، امن، برابری، صنعتکاری، زراعت و گورننس کی بہتری کی اب کوئی امید باقی نہیں ہے۔ سندھ کے الیکٹیبلز جن کو اسٹیبلشمینٹ کی جانب سے کبھی پیپلز پارٹی، کبھی پی ٹی آئی و کبھی نون لیگ میں شمولیت کرنے کے اشارے دئیے جاتے ہیں، وہ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ کرپشن کے ذریعے کھرب پتی بننے کا سب سے مفید و آسان راستہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونا ہے۔
سندھ کی دیہی نشستیں حسب دستور پیپلز پارٹی سے جڑے ہوئے جاگیرداروں، پیروں، وڈیروں اور سرداروں کے حوالے کردی جائیں گی، سندھ کے دارالحکومت و پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری مرکز کراچی کے نتائج میں جس طرح2018ء کے الیکشنز میں انجینئرنگ کرکے مخصوص لوگوں کو جتوایا گیا، اس دفعہ بھی ان کو جتوا دیا جائے گا، مگر کراچی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ سندھ کے مڈل کلاس کی وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت کو مسلسل الیکشنز لڑنے و دھاندلیوں سے ہرا دیئے جانے والے صاف، شفاف، قابل و میریٹوریس امیدواروں کو یہ پیغام دے دیا جائے گا کہ آپ جیسے باصلاحیت و ایماندار لوگوں کے لیے سندھ اسمبلی و وفاقی پارلیمان میں کوئی جگہ نہیں، یہ ایوان صرف پندرہ سال کے لیے ہی نہیں بلکہ پچیس، تیس سال تک صرف پیپلز پارٹی کے لیے مخصوص کر دیئے گئے ہیں۔







