مسجد میں موبائل فون آف کر دیا کریں

رفیع صحرائی
موبائل فون ہماری زندگی کا جزوِ لاینفک بن گیا ہے۔ اس کے بغیر کسی کا بھی گزارا ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا جیسے فیس بک، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک، ٹویٹر ار واٹس اپ کا فروغ موبائل فون ہی کا مرہونِ منت ہے۔ دیکھا جائے تو موبائل فون نے ایک عفریت کی طرح بہت سی سائنسی ایجادات اور سہولیات کو نگل لیا ہے۔ کیمرا، وڈیو کیمرا، ریڈیو، ٹی وی، ڈی وی ڈی، وی سی آر، سینما، گھڑی، ٹیپ ریکارڈر، بلڈ پریشر مشین، شوگر ٹیسٹ کرنے کی مشین کے علاوہ دوسرے کئی قسم کے آلات اس چھوٹے سے گیجٹ میں سما گئے ہیں۔ اس نے خط و کتابت کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔ ای میل کی سہولت نے ڈاک کی ترسیل کو انتہائی تیز رفتار، آسان اور سستا ترین بنا دیا ہے۔ آپ راز داری کے ساتھ مطلوبہ پتے پر ویڈیوز، تصاویر، دستاویزات اور تحاریر برق رفتاری سے اپنے موبائل فون کے ذریعے پہنچا سکتے ہیں۔ ہر وقت دنیا کے ساتھ رابطے میں رہنا موبائل فون نے ممکن بنا دیا ہے۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی بڑی سہولت کی موجودگی اور اس کی برق رفتاری کی وجہ سے ہم اپنے کاموں سے جلدی فارغ ہو کر بہت سا وقت بچا لیتے مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا ہے۔ موبائل فون کی وجہ سے ہر بندہ پہلے سے زیادہ مصروف ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ کسی محفل میں بیٹھے لوگ بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہو کر اپنے اپنے موبائل فون میں مصروف ہوتے ہیں۔ موبائل فون نے آکٹوپس کی طرح ہر ایک کو بری طرح جکڑ لیا ہے۔ اس نے ساحر بن کر سب کو اپنے سحر کے اثر میں لے لیا ہے۔ بڑے تو بڑے شیر خوار بچے تک اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ روتے ہوئے بچے کو چپ کروانا ہو تو اس کے ہاتھ میں موبائل پکڑا دیا جاتا ہے۔ اسے رُلانا ہو تو اس کے ہاتھ سے موبائل واپس پکڑ لیں۔ مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ موبائل میں مصروف بچے کو انجکشن لگانا اس قدر آسان ہوتا ہے کہ اسے انجکشن لگنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں اکثر نوجوانوں کو دیکھا گیا ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے سلام پھیرنے کے بعد جیب سے فوراً موبائل فون نکال کر دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے نماز کی قبولیت کا میسج دیکھ رہے ہوں۔ ہمارے شہر کی مسجد کے ایک امام صاحب نے موبائل فون کی شیطانیوں پر سیر حاصل لیکچر دینے کے بعد دورانِ نماز اسے بند کرنے کی سخت تاکید کی اور نماز باجماعت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ دوسری رکعت میں تشہد پر بیٹھے تھے کہ ان کے اپنے موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔
مسجد میں موبائل فون آف رکھنا مسجد کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ نیز موبائل کی گھنٹی دوسروں کی عبادت میں خلل ڈالنے کا باعث بھی بنتی ہے۔ عبادت کا اصل لطف پرسکون ماحول میں ہی حاصل ہوتا ہے
آئیے ایک اور واقعہ بھی پڑھتے جائیے، جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مسجد میں موبائل فون کو بند یا سائلنٹ موڈ پر رکھنا کتنا ضروری ہے۔ یہ واقعہ راوی کی زبانی ہی پیشِ خدمت ہے۔
’’ میں عشاء کی باجماعت نماز میں چوتھی رکعت کے قیام میں کھڑا تھا۔ پوری مسجد میں خاموشی تھی جب اچانک میرے ساتھ کھڑے لڑکے کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے جلدی سے اپنی پینٹ کی پاکٹ کے باہر سے ہی موبائل کا کوئی بٹن دبایا تو آواز بند ہوگئی۔ جب ہم تشہد میں بیٹھے تو اس لڑکے کو احساس ہوا کہ موبائل سے کسی کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ شاید کال کٹی نہیں تھی بلکہ ریسیو کرنے والا بٹن دب گیا تھا۔ اس نے تشہد میں بیٹھے بیٹھے ہی کال کاٹنے کے لیے کوئی بٹن دبایا مگر شومئی قسمت کہ سپیکر آن ہو گیا۔ مسجد میں مکمل خاموشی تھی اس لیے پوری مسجد میں موبائل کے سپیکر سے آنے والی آواز گونجنے لگی،
’’ ہیلو جان! ابھی تک ناراض ہو؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟‘‘
’’ جان پلیز ایک بار بات کر لو نا! پکّا اب لڑائی نہیں کروں گی‘‘۔
’’سچ میں میرا اپنے کزن سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو دوپٹہ پیکو کرانے اس کے ساتھ گئی تھی تو گول گپے کھا لیے جہاں آپ نے دیکھا۔ جان پلیز!‘‘
لڑکا بیچارا لگا رہا کہ کسی طرح کال کٹ جائے لیکن اس دن اس کی قسمت کا ستارہ ہی گردش میں تھا۔ کال کٹی اور نہ ہی سپیکر آف ہوا۔ وہ بندی اپنے جانو مانو شانو کو منانے میں لگی رہی۔
مولوی صاحب نے جلدی سے سلام پھیرا۔ اس لڑکے نے آئو دیکھا نہ تائو سیدھے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
اس کے پیچھے اس کے والد محترم بھی جوتی پہننے کی بجائے ہاتھ میں پکڑے باہر نکل گئے۔ اور پھر باہر جو ہوا اس کے آگے مورّخ کی خاموشی ہی بہتر ہے۔
درج بالا واقعہ سے اخلاقی سبق تو آپ نے اخذ کر ہی لیا ہو گا کہ مسجد میں موبائل فون ہمیشہ آف رکھیں۔





