جمہوری پارٹیوں میں فرد واحد

تجمل حسین ہاشمی
کراچی کی بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا، اس اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف کوئی خاص بیان بازی نظر نہیں آئی، پیپلز پارٹی کی قیادت صرف ایم کیو ایم پاکستان پر تنقید کرتی نظر آئی لیکن مسلم لیگ ن پر کوئی کڑک دار بیان نظر نہیں آیا ، پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے ذو معنی الفاظ میں تنقید کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا رابطہ عوام سے ہے اور ان کا رابطہ کسی سلیکشن کمیٹی سے ہے‘‘۔ بلاول بھٹو گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ لاہور کا وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کیلئے سادہ اکثریت حاصل کرنا بہت ضروری ہے، سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ الحاق نے سیاست میں گھنٹی بجا دی ہے اور ساتھ میں مسلم لیگ ن نے سندھ کی صدارت بشیر میمن کے سپرد کردی، خبر کے مطابق بشیر میمن نے حروں کے پیشوا پیر پگاڑا سے ملاقات کی اور میاں نواز شریف کا پیغام پہنچایا۔ پاکستان کی سیاست میں ایم کیو ایم پاکستان کا ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور ہے، سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں ایم کیو ایم پاکستان اہمیت کی حامل تھی، ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ مولانا اور شہباز شریف کی ضمانت پر ہم راضی ہوئے تھے۔ ہمیں عددی مت سمجھیں۔ ہماری اہمیت شاید پاکستان کی بڑی جماعتوں سے بھی زیادہ ہے اگر کراچی کو اگنور کرنا بند کر دیا جائے۔ حقیت میں ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ اس وقت بہت اہمیت کے حامل تھے اور آج پھر ایم کیو ایم پاکستان اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ سینئر کالم نگار و صحافی ناصر شریف کا کہنا تھا لاہور جا کر ایم کیو ایم پاکستان کا اتحاد کوئی بات نہیں کیوں کہ نائن زیرو اب رہا نہیں۔ لیکن ایم کیو ایم پاکستان کو الیکشن کیلئے گرائونڈ ملنا اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن سے پہلے ایسے الحاق ممکنہ حالات کی واضح تصویر کشی ہے۔ جس کے بارے میں چیئرمین پیپلز پارٹی کے بیان سے واضح ہو رہا ہے کہ 2024ء میں ہونے والے الیکشن سلیکشن کی طرف جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے سینئر صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف سجاد اظہر سے جاننے کی کوشش کی کہ دونوں پارٹیوں کے وقت سے پہلے الحاق سے کیسا تاثر پیدا کیا جا رہا ہے؟ سینئر صحافی سجاد اظہر نے بتایا کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرح دوسری کئی جماعتیں بھی مسلم لیگ ن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں گی ان جماعتوں میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہو گی۔ یہ ایک قومی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے، جس کی سر براہی میاں نواز شریف کریں گے، مزید سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں نواز شریف کے معاملات خراب ہونے کی وجہ انڈیا پالیسی تھی ، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دفعہ نواز شریف ان معاملات کو پہلے ہی ایڈریس کر کے آئے ہیں۔ لیکن اگر نواز شریف کی تینوں دفعہ کی حکومت اختلافات کا شکار رہی اور اب سینئر رہنما جس میں جاوید ہاشمی، مہتاب عباسی، چودھری نثار اور شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل جیسے رہنما پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں یا الگ ہوگئے ہیں، میڈیا رپورٹ کے مطابق میاں نواز شریف سے ان کو کوئی اختلاف نہیں لیکن قیادت کی تبدیلی کے طریقہ کار پر ان کو اعتراضات ہیں، خواجہ سعد رفیق بھی کئی دفعہ پارٹیوں میں جمہوریت پر تنقید کر چکے ہیں، سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ تمام لوگ کسی دبائو سے الگ نہیں ہوئے، پارٹی اصولوں سے ان کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ ن لیگ سندھ کی مقامی قیادت دھڑے بندی کا شکار رہی ہے اور اب سندھ کی صدارت بشیر میمن کے سپرد کردی گئی ہے، بشیر میمن ن لیگ کے ووٹ بینک اور قیادت کو کیسے متحرک کرتے ہیں، ان حالات میں یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ حالات کس طرف جاتے ہیں یہ وقت ثابت کریگا۔ ماضی کے الحاق کا نتیجہ بھی سامنے ہے، 17ماہ کی اتحادیوں کی کارکردگی بھی سامنے ہے، جس میں کہا جاتا تھا کہ تجربہ کار ٹیم ہے، تمام جماعتیں ملکر ملکی معیشت کو ٹھیک کریں گی۔ موجودہ الحاق معیشت کیلئے کس قدر مددگار ہو گا، اس کے نتائج بھی دور نہیں ہیں، کیا عوام اس اتحاد کو قبول کریگی، مہنگائی کا طوفان کنٹرول ہوا ہے لیکن قیمتوں میں کمی نظر نہیں آرہی، انتظامیہ اور مافیا اب بھی اپنی من مانی کر رہے ہیں۔





