Column

ثبات اک تغیر کو ہے

صفدر علی حیدری

دو دوست اکثر آپس میں بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ موحد دوست کی خواہش تھی کہ اس کا دہریہ دوست راہ راست پر آجائے اور کچھ ایسے ہی جذبات اُس دہریے کے موحد دوست کے بارے میں بھی ہوتے۔ روز روز کی بحث سے عاجز آکر دونوں نے ایک دوسرے کو کھلا چیلنج دے ڈالا۔ ہارنے والے کو فاتح کا عقیدہ دل و جاں سے قبول کرنا تھا۔ مناظرے کے دن دونوں کے درمیان خوب بحث مباحثہ ہوا، خوب گرما گرمی ہوئی۔۔۔ بالآخر دہریہ اپنے سابقہ عقیدے سے تائب ہو گیا۔ دنیا اس کے ہاتھ میں تسبیح اور سر پر ٹوپی سجی ٹوپی دیکھ کر حیرت زدہ تھی۔ جبکہ موحد کے بارے میں جبران نے بڑی انوکھی بات لکھی ہے کہ اس نے اپنی ساری کتابوں کو آگ لگا دی کیونکہ اب وہ دہریہ بن چکا تھا۔مثبت ہو یا منفی تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے۔ جبھی تو علامہ صاحب فرما گئے ہیں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
تبدیلی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، جس کا دائرہ کار اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اس نے گویا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ( ہاں مگر خود کو تبدیل کرنا شاید دنیا کا مشکل ترین کام ہے )۔ حد تو یہ ہے کہ علمائے دین فرماتے ہیں لوح محفوظ کی تحریر تک تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ام الکتاب تو خالق فطرت کے ہاتھ میں ہے۔ جو چاہا لکھ دیا، جسے چاہا مٹا دیا۔ خالقِ کائنات بذات خود انسانوں کے درمیان زمانوں کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ سورۃ عصر میں بھی اس نے زمانے کی قسم اٹھا کے گویا اُسی تبدیلی کو گواہ بنایا ہے۔ ہر چیز تبدیل ہو سکتی ہے سوائے اس آفاقی نظریے کے کہ تبدیلی ایک غیر فانی حقیقت ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں جب ہم سب تبدیلی پر اس حد تک ایمان رکھتے ہیں تو پھر بدل جانے والوں کو بے وفا کہہ کر معطون کیوں کرتے ہیں؟ بھئی جب اتنا کچھ بدل رہا ہے اور ہم قبول کیے ہوئے ہیں تو بدل جانے والے انسانوں کے لیے ہمارے ظرف کا پیمانہ اتنا تنگ کیوں پڑ جاتا ہے ؟ کچھ ریلیف انسانوں کو دے دینے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟؟؟؟۔ تبدیلی نے بڑے بڑوں کے برتن بیچ چوراہے یوں پھوڑ ڈالے کہ بیچارے محض آنکھ پھاڑے دیکھتے رہنے کے سوا کچھ بھی نہ کر پائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ عادات، معیارات، افکار و نظریات، تصورات، واقعات، حالات، اطوار، اقدار حتیٰ کہ انسان تک بدل جاتے ہیں۔ جب کبھی کسی کی سوچ کا انداز بدلتا ہے تو ہم بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ فُلاں آدمی تو بالکل ہی بدل گیا ہے ۔
’’ ایک سرکاری نوکری کیا ہاتھ آئی، اس نے تو آنکھیں ہی اٹھا کر ماتھے پر رکھ لی ہیں‘‘۔
حالانکہ بقول باب مدین العلم ’’ دولت، طاقت اور اختیار ملنے پر لوگ بدلتے نہیں عیاں ہو جاتے ہیں ‘‘ گویا یہ چیزیں انسان کو ’’ ایکسپوز‘‘ کر ڈالتی ہیں۔ بشیر بدر نے یونہی تو نہیں کہا
سنا ہے انہیں بھی ہوا لگ گئی
ہوائوں کا رخ جو بدلتے رہے
وطن عزیز بھی کسی عجوبے سے ہرگز کم نہیں۔ یہاں چیزوں اور باتوں کا مفہوم ہی بدل کر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ سو تبدیلی نے جب ہمارے یہاں رخ کیا تو تبدیلی کے اپنے ہی طیور بدل کر رہ گئے۔ جبھی تو مثبت حوالوں سے یہاں کچھ نہیں بدلا۔ کہتے ہیں ایک زور آور شخص نے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ انسان کی قوت وقت کے سبب نہیں بدلتی۔ جیسی قوت جوانی میں ہوتی ہے ویسے ہی بڑھاپے میں رہتی ہے۔ پھر اپنی بات کا ثبوت یوں دیا۔
’’ سامنے دھرا پتھر دیکھ رہے ہیں آپ ، یہ میں جوانی میں بھی اٹھا نہیں پایا تھا اور اب اس بڑھاپے میں بھی اسے اٹھانے سے عاجز ہوں‘‘۔
اب ایسا بھی نہیں کہ کہ ہمارے یہاں کچھ بھی نہ بدلا ہو۔ عادات سے اطوار تک، فلسفے سے اخلاق تک، بہت کچھ تبدیل کی بھینٹ چڑھا۔ بس نہیں بدلا تو ہمارے یہاں کا انداز حکمرانی نہیں بدلا ( کہ یہاں چہرے بدلتے ہیں حکومتیں نہیں۔ جبھی تو غریب کی حالت کبھی نہیں بدلی۔ اور اس بار تو قوم نئے اور پرانے دونوں کو بھگت چکی ہے )۔ ہاں ایک چہرے پر کئی چہرے سجائے لوگ آئے اور قوم کی جڑوں میں بیٹھ گئے۔ جبھی تو تبدیلی کا مثبت پہلو ہمارے یہاں اپنا وجود کھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا میں سیاسی تبدیلی کے عموماً دو ہی طریقے رائج ہیں ۔ ایک انقلاب جبکہ دوسرا انتخاب۔ اکثر انقلاب خفیہ ہاتھ ہائی جیک کر لیا کرتے ہیں ( جیسے ہمارے ہاں نظام مصطفیٰؐ کی تحریک ایک آمر نے ہائی جیک کر لی۔ جس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے اور نا جانے کب تک بھگتتی رہے گی )۔ اس تناظر میں انتخاب کا راستہ زیادہ متوازن بھی ہے اور مثبت بھی، کہ انقلاب کے ثمرات کی بجائے مضمرات ہی اکثر قوموں کو جھیلنے پڑے ہیں ۔ سو ووٹ کے ذریعے تبدیلی انقلاب سے کہیں ’’ سیف ‘‘ ہوتی ہے ( مگر ہمارے ہاں الیکشن ہی ’’ انقلابی ‘‘ ہو جاتے ہیں )۔ ووٹ کو مہذب قومیں کسی مقصد امانت کا درجہ دیتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جانے کیوں اسے اتنا ہلکا سمجھ لیا گیا ہے کہ محض چند سکوں ،تعصب، علاقائیت، لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت یا برادری ازم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنا کتنا بڑا نقصان کر چکا ہیں۔ ایک ایسا’’ آزاد‘‘ ملک جہاں آزاد الیکشن ایک خواب بن کر رہ گئے ہوں وہاں ووٹ کی اس قدر ناقدری کیا کسی المیے سے کم ہے جہاں پورا انتخابی عمل ہی ڈرامہ بن کر رہ جائے ۔ فروری میں پھر ایک تبدیلی کی شنید ہے۔ کو بہر طور ثابت کیا ہے۔
قائم ہے اک روایت دیرینہ ظلم کی
بازو بدل گئے کبھی خنجر بدل گئے
موضوع سے انصاف نہ ہو پائے گا اگر یہاں ان عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو تبدیلی کی راہ میں حائل ہو جایا کرتے ہیں۔ گرگٹ کی طرح رنگ اور امیبا کی طرح پل پل شکل بدلتی اس دنیا میں وہ لوگ لائق صد احترام ہیں جو جواں مردی سے منفی تبدیلیوں کے آگے سینہ سپر رہتے ہیں۔ ( بے جا ضد پر اڑے معتصب افراد کے علاوہ ) اور وہ لوگ بھی جو خود کو غلطی پر پاتے ہیں تو اپنے موقف کو بدلنے اور کوسوں دور ہٹنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگاتے۔
( یوٹرن لیتے )
سقراط کی طرح سچ پر ڈٹ جانے والے یا گلیلیو کی طرح بات کو گھما پھرا کر اپنی بات پر قائم رہ جانے والے ( انبیاء کرامٌ سے صالحین تک کا تو ذکر ہی کیا کہ وہ مومن کامل کی کامل و اکمل مثالیں ہیں) ۔ ایسے لوگ اور ایسے جذبات قابل مذمت ہوتے ہیں جو تبدیل نہ ہونے والی چیزوں کو بدلنے یا مسخ کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں۔ زن ، زر اور زمین کی چمک کے زیر اثر جن کے رویے ، نیت ، ارادے اور ایمان تک بدل جاتے ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار بدلنے کی سعی نا مشکور کرتے ہیں یہ لوگ سچ کو جھوٹ کے ساتھ ملا دینے کے سنگین جرم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ سچ کو سچ نہ مان کر ہم حق کو تو تبدیل نہیں کر سکتے ہاں لوگوں کی ہمارے بارے میں رائے ضرور بدل جاتی ہے ( منفی انداز سے)۔ ہم مسلمان آج جس ابتری اور ابتلا کا شکار ہیں اس سے چھٹکارے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دعا کے ساتھ ساتھ اپنے ان ہاتھوں کو تعمیری کاموں میں بھی مصروف کریں۔ کیونکہ خالقِ خشک و ترکی سنت کبھی نہیں بدلتی۔ اور اس کی سنت ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جسے خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
تبدیلی کے حوالے سے مگر سامنے کی بات یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں ہوتی ایک جبری اور دوسری اختیاری۔ ہمیں تو ظاہر ہے اسی کی بات کرنا ہے جو ہمارے دائرہ اختیار میں آتی ہے کہ فطری تبدیلی کے اثرات تو ہم پر پڑے یہ رہتے ہیں۔ ( اس سے بچنے کے لئے سوائے دعا کے اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔ اب پتہ نہیں یہ دعا کے دائرے میں آتی بھی ہیں یا نہیں)۔ انسان کو تبدیلی کا آغاز اپنے گھر اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔ لیکن وہ جو ہمارا کھلا دشمن ہے ناں وہ اس معاملے میں بھی اپنی ٹانگ اڑانی سے باز نہیں آتا۔ جب جب ہمیں اصلاح کا خیال آتا ہے ہم منہ اٹھا کر دوسروں کی ہدایت کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور یوں اپنی اصلاح کا خیال خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ تبدیلی کے علم برداروں کا المیہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ الٹی چھلانگ لگاتے ہیں۔ کائنات سے ذات کے سفر میں آدمی ذات تک پہنچ ہی نہیں پاتا کہ اوپر بلاوا آجاتا ہے ۔ یوں تبدیلی جیسا آسان سا فطری عمل بھی کارِ دشوار ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ کتنا آسان سا عمل ہے کہ اس کے لیے کہیں باہر جانا ہی نہیں پڑتا ہاں خود اپنے اندر اترنا پڑتا ہے۔ لیکن ہم تو اپنے اوپر ’’ اتراتے ‘‘ ہیں اور اپنے من میں اترتے ہی نہیں ۔ جو خود کو نہ بدل سکے وہ کسی اور کو بدلنے کا حق کھو دیتا ہے۔ اپنی اصلاح نہ کر سکنے والوں کو ہم نے سدا سماج سے نالاں ہی دیکھا ہے۔ یہ لوگ تب تک نالاں ہی رہیں گے جب تک ان کا رخ ذات سے کائنات کی طرف نہیں ہو جاتا۔ ہم بھی کیسے دم پرست لوگ ہیں ، ہر اچھی چیز اپنی دیکھنا چاہتے ہیں اور اصلاح کسی دوسرے کی۔ پھر خود کو بدلنے سے بچا نے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتے ۔ ہمیں الٰہی منشور حیات کا مفہوم بدلنے کی مذموم کوشش چھوڑ کر خود کو بدلنا ہو گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نشان تاریخ کی کتابوں سی مٹنے نہ پائے تو ہمیں اس طاغوتی معاشرے میں ’’ حر‘‘ کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اور اپنے اندر نور ایمان کی لو کو مدہم نہیں ہونے دینا۔ ہمیں قرآن میں غوطہ زن ہو کر اپنے کردار کو بدلنا ہو گا۔ اس میں جدت لانا ہو گی۔ خود کو الٰہی رنگ میں رنگنا ہو گا۔ دین کو پورے کا پورا اپنانا ہو گا۔ خواہش کو دین نہیں بنانا بلکہ دین کے مطابق اپنی خواہشوں کو بدلنا ہو گا تاکہ ہمارا زوال اور حال عروج میں بدل سکے۔ کیوں کہ صرف اندرونی تبدیلی ہی زندگی کا پیغام لاتی ہے۔ گھن اور گرہن زدہ خیالات نقش کہن کی طرح ہوتے ہیں جن کا جلد سے جلد مٹا دیا جانا ہی ایک ایسی تبدیلی ہے، جسے ہم نے اپنے سماج میں رواج دینا ہے تبھی جوہری تبدیلی رونما ہو گی، جو ہمیں اور اس ظالمانہ نظام کو پورے کا پورا بدل دے گی۔ کیا خیال ہے؟؟؟
سلطا نی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جواب دیں

Back to top button