Column

ای سی او کانفرنس، آذربائجان کا یوم فتح

نثار حسین

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں بنیادی نکتہ مفادات کی سیاست ہوتی ہے. یہ مفادات معاشی، فوجی یا کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی مستقل نہیں ہوتی بلکہ حالات و واقعات اور دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بدلتی رہتی ہے۔ کمزور معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے حامل ممالک کیلئے ایک آزادانہ خارجہ پالیسی کی تشکیل مشکل ہوتی ہے تاہم کامیاب ملک وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ اور کسی ملک کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرتا۔ موجودہ عہد کی خارجہ پالیسی میں علاقائی اور خطے کی تنظیموں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جنوبی ایشیا میںECO ترقی کی طرف بڑھتی ہوئی ایک ایسی تنظیم ہے جو خطے میں خوشحالی کی نوید ثابت ہو گی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں پاکستان ایران، ترکی، ازبکستان، ترکمانستان، افغانستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازقستان اور آذربائجان شامل ہیں۔ تنظیم کا صدر دفتر تہران میں ہے۔ یہ تنظیم 1985میں ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی پھر 1992میں وسطیٰ ایشیا کے 7ممالک کو تنظیم میں رکنیت دی گئی۔ رکن ممالک کے درمیان 17جولائی 2003کو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے ارکان تجارتی معاہدے پر بھی دستخط کیے۔ اقتصادی تعاون تنظیم اگرچہ مکمل طور پر اپنے اہداف تو حاصل نہیں کر سکی مگر اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تنظیم کی اسلام آباد میں ہونیوالی سر براہ کانفرنس میں ویژن 2025 کے تحت اگلے 5 سال میں رکن ممالک کے مابین تجارت کو دگنا کرنے کا اہداف مقرر کیا گیا تھا۔ تنظیم خطے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ موجودہ کانفرنس میں اب تک کیے گئے اقدامات اور ان کے نتائج پر غور کیا جائے گا۔ای سی او کے رکن ممالک کے درمیان تجارت، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں رابطے اور تعاون بڑھانے کے نئے راستوں پر بات چیت ہو گی جبکہ ممبر ممالک کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت اور سامان کی تیز تر ترسیل کے حوالے سے اقدامات کے لیے طریقہ وضع کیا جائے گا۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور افغانستان میں امن کے قیام کے لیے رکن ممالک کو کوشش کرنا ہو گی۔ تاشقند روانگی سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم انوارلحق نے کہا کہ افغان حکومت بننے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی 60فیصد بڑھی۔ افغانستان نے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے افغان رہنماں کے بیانات کو افسوسناک قرار دیا۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ علاقائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کیلئے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہیں۔ وزیراعظم کانفرنس میںECOویژن 2025پر پاکستان کا موقف پیش کریں گے ۔ اس موقع پر وہ ازبکستان کی بزنس کمیونٹی کے علاوہ ترکی، ایران، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے رہنماں سے اہم ملاقاتیں کریں گے۔ پاکستان اور آذربائجان کے درمیان بہترین تعلقاتِ ہیں۔ دونوں ممالک سٹرٹیجک شراکت دار ہیں۔ آذربائجان اور پاکستان میں فوجی تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آذربائجان پاکستان سےJFتھنڈر17جنگی طیارے خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس حوالے سے پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک تجارت اور تعاون مسلسل بڑھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ آرمینیا کے ساتھ ہونیوالی جنگ میں پاکستان نے آذربائجان کے موقف کی بھر پور حمایت کی۔ پاکستان اور آذربائجان کے مابین مذہبی اور ثقافتی شعبوں میں بھی تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ سویت یونین سے آزادی کے بعد12دسمبر 1991کو پاکستان نے آذربائجان کو تسلیم کیا تھا۔ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے آذربائجان کے یوم فتح پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی طرف سے آذربائجان کی حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا جب 30برس تک زیر قبضہ رہنے والا آذربائیجان آزاد ہوا۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ صدر الہام علیوف کی متحرک قیادت نے جمہوریہ آذربائجان کو علاقائی مرکز اور اقتصادی طاقت میں تبدیل کیا۔ آذربائجان نے حال ہی میں آزاد ہونے والے ان علاقوں کی ترقی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، آذربائجان نے اپنے ان آزاد ہونے والے علاقوں میں فضائی اڈے اور جدید انفراسٹرکچر تعمیر کیا۔ آذربائیجان کی اس ترقی کی وجہ ان کی دور اندیش قیادت کی جانب سے کیے جانے والے دور اندیش اقدامات ہیں جس کے باعث یہ ملک ترقی کے سفر پر گامزن ہوا ہے جب کہ پاکستان کے لیے اس باب میں سیکھنے کے لیے بہت سے اسباق ہیں جن پر عمل کر کے نہ صرف معاشی بحران سے نکلا جا سکتا ہے بلکہ ترقی کے سفر پر بھی گامزن ہوا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button