قیامت کی گھڑی میں الیکشن کی پڑی ہے

سیدہ عنبرین
میدان سیاست میں ہلکی سی ہوا چلی ہے کوئی بھونچال نہیں ہے مگر پھر بھی بعض سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل اسے طوفان ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا ایک وفد کراچی سے آیا ہے رائے ونڈ اس کا میزبان ہے لیکن اسے رائے ونڈ نہیں لے جایا گیا صرف ماڈل ٹائون کے پھیرے پر ٹرخایا گیا ہے۔ رائے ونڈ اسے لے جاتا ہے جو ہم پلہ ہو۔ عام کارکنوں سے ترقی کر کے جو سیاسی لیڈر بنتے ہیں ان کی تواضع ماڈل ٹائون میں کی جاتی ہے، جسے اب دفتر کا درجہ حاصل ہے، منظر وہی تھا جو برس ہا برس پہلے تھا۔ نواز و شہباز، اسحاق ڈار و احسن اقبال، خواجہ آصف شانہ بشانہ تھے۔ ایک ہی خاندان ہے پھر وہ قریب قریب نہ بیٹھے گا تو اور کون بیٹھے گا۔ خواتین کی نمائندگی کیلئے مریم صفدر موجود تھیں، پوری مسلم لیگ میں خاندان سے باہر کوئی اس قابل نہ تھا کہ اسے اہمیت دی جاتی، یہی حال چند روز قبل سیالکوٹ دیکھنے میں آیا وہاں بھی نواز و شہباز، اسحاق ڈار اور خواجہ آصف تھے۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر، سی ای او، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور چیف اکائونٹنٹ گھر کے لوگ ہوں تو کاروبار خوب چلتا ہے۔ راز کی باتیں راز رہتی ہیں کوئی راز افشا ہونے کا خوف نہیں ہوتا۔ میڈیا مینجرز کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ صبح شروع ہونے سے قبل ہی پراپیگنڈا شروع کر دو کہ ہمیں میچ جتوانے کا فیصلہ ہو چکا ہے لہذا مقابل ٹیمیں کھیلنے کیلئے میدان میں نہ ہی اتریں تو بہتر ہے۔ اندر کی کہانی یہ ہے کہ ابھی تو یہ طے نہیں کہ کون کون سا کھلاڑی فٹ ہے اور کون سا ان فٹ ، پھر کیا خبر جو آج فٹ نظر آتا ہے ہو میچ سے ایک روز پہلے ان فٹ ہو جائے، سیاسی میچ اب روپے کے زور کے سا تھ ساتھ مسلز کے کھیلا جاتا ہے، مسل کسی کا بھی ہو کسی بھی وقت پل ہو سکتا ہے ، ملک بچانے کیلئے بلند و بانگ دعوے کئے گئے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ملک کو اس حال تک کس نے پہنچایا ،اثاثے کس نے بیچے، شاہرائیں ایر پورٹ گروی کون رکھ گیا۔ مقدمات بیک جنبش قلم ختم کیسے ہو گئے۔ دنیا کے متروک کیے گئے کوئلے سے چلنے والے پلانٹ کس نے لگوائے، قوم جس سموگ کو آج بھگت رہی ہے سانس لینا محال ہوا جاتا ہے یہ کارنامہ کس کا ہے ، پھر قوم کی تقدیر بدلنے کا وہ نسخہ کیا ہے جو گزشتہ چالیس برس میں برتا نہیں گیا۔ اب کہتے ہیں ھینگ لگے کی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے گا ،قوم جاننا چاہتی ہے رنگ چوکھا کیسے آئے گا۔ رنگ رنگیلے اور چھیل چھبیلے کہانیاں تو بہت سنا رہے ہیں ایسا نہ ہو جو بچا کچھا رنگ ہے وقت کی تیز دھوپ اور نااہلی کی ہوا اسے بھی اڑا لے جائے یہ ہوتا تونوشتہ دیوار ہے بس یہ بتا دیا جائے کہ جب یہ سب کچھ ہو جائے گا آپ جناب تو درد دل کے بہانے پھر لندن روانہ ہو جائیں گے جس طرح پہلے جدہ پہنچے پھر لندن چلے گے ہم کس کی ماں کو ماسی کہیں۔
ایم کیو ایم اور شریف لیگ کا نکاح متعدد مرتبہ ٹوٹا جائے اسے کیوں اس مرتبہ یقین ہے کہ اب اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، فرائض شوہرعی پورے کئے جائیں گے سوتن نہیں آئیگی پاکٹ منی ہر وقت ملے گا حق خلع دیا جائے گا اور پھر علیحدگی کی نوبت آئی تو نان نفقہ بنا مانگے ملے گا۔ ایم کیو ایم ہر بگڑی ہوئی بیوی کا رنگ اقتدار کے تیسرے برس چڑھتا ہے یا یوں کہہ لیجئے جس کے عقد میں جائے وہ اس عرصہ میں اس سے علیحدگی کا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ تنگ کرنا شروع کر دیتا ہے پس علیحدگی کے سوا چارہ نہیں رہتا، سیاسی محلے میں ایک خاص شخص ہے وہ آتے جاتے آنکھیں مارنا شروع کر دیتا ہے اس کی نظر ہمیشہ ایسی پارٹیوں پر ہوتی ہے جس کی قومی اسمبلی میں پانچ ،دس سیٹیں ہوں۔ ایم کیو ایم کے پاس کبھی بیس سیٹیں ہوا کرتی تھیں اب دعویٰ ہے کہ کھوئی ہوئی سیٹیں حاصل کر لیں گے۔ یہ سب اتنا آسان نہ ہوگا جماعت اسلامی موجود ہے عین ممکن ہے وہ پیپلز پارٹی کی اتحادی بن جائے یوں رنگ میں بھنگ پڑ سکتی ہے۔
شریف اتحاد میں شمولیت سے اسے مرکز میں شاید کوئی فائدہ ہو ،صوبہ سندھ میں اسے صوبائی حکومت میں جگہ نہ ملے گی ،شریف لیگ کی نظر وزارت عظمیٰ پر ہے لہذا اس کی کوشش ہو گی کہ وہ ایک سیٹ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی پارٹی سے بھی ڈیل کرے اور اسے ساتھ ملائے۔ وہ ان کے ساتھ عجیب دن ہو گا جب ان کا اتحاد شیخ چلہ صاحب سے ہو رہا ہوگا جنہوں نے ایک کی بجائے فی الحال تو دو سیٹوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں ایک سیٹ والے کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔ دو سٹی والے کی حیثیت دو سیٹوں والے کی ہی ہوتی ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم شریف لیگ اتحاد کے موقع پر بھی کسی کو فلسطین یاد نہ تھا۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے بعد آصف زرداری صاحب نے الیکشن کمپین میں بالغ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالفوں سیاسی مخالفوں اور دشمنوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سب کو الیکشن لڑنے پر خوش آمدید کہتے ہیں۔ سب اپنی اپنی سیاست کریں وہ بھی اپنی سیاست کرینگے جو عوام کی سیاست ہوگی جس طرح ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو صاحبہ عوام کی سیاست کرتے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے اس بات کی تردید کردی کہ شریف لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور اب نواز شریف وزیراعظم اور صدر آصف زرداری ہونگے، انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ اس مرتبہ وزیر اعظم لاہور سے نہیں ہوگا، سیاسی ملا کھڑا شروع ہونے سے قبل اسی طرح کے بیان دئیے جاتے ہیں جوں جوں پولنگ کا دن قریب آتا ہے معاملات کھل کر سامنے آنے لگتے ہیں۔
شریف لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کی خبریں کئی ماہ قبل آنا شروع ہو گئی تھیں ،دونوں جماعتوں کے راہنما دبئی میں دو مرتبہ اکٹھے ہوئے۔ مختلف ایشوز پر سیر حاصل بات ہوئی لیکن اختلافات ختم نہ ہوا ،شریف لیگ ماضی میں کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھ رہی، مبینہ طور پر کہا جارہا ہے کہ ان کے پائوں پکڑنے کے دن گزر گئے ہیں اب وہ گلے پکڑنے کے درپے ہے۔
سب کی نظریں اب جماعت اسلامی ،مولانا فضل الرحمٰن ،تحریک لیبک اور ان جماعتوں سے نسبتاً زیادہ سیٹیں جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر لگی ہیں دیکھنا ہے کون کدھر جاتا ہے یا کس کو کدھر جانے کا اشارہ ہوتا ہے ملکی صورتحال اور حد سے بڑھتے ہوئے انتشار کی فضا میں اس ووٹر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی قیادت جیل میں ہے جس کی تنظیم بکھر چکی ہے، وہ ووٹر کس کے حق میں اپنا ووٹ ڈالتا ہے یہ عقدہ پولنگ ڈے کے قریب ہی کھلے گا لیکن یہ بات طے وہ اپنا ووٹ شریف لیگ کو نہیں دیں گے۔
ایک طرف الیکشن کی تیاریاں ہیں دوسری طرف پاکستان میں دہشتگردی کی لہر ہے ایک ہفتے کے دوران دہشتگروں نے تین مختلف علاقوں میں اپنی مذموم کارروائیوں کی کوشش کی ، جنہیں پاکستان آرمی کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر ناکام بنایا، تخریب کاروں دہشت کاروں کے خلاف آپریشن میں ایک جھڑپ میں چودہ جوان شہید ہوئے، ایک دوسرے واقعے میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور چار فوجی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ مقام افسوس، وزیر اعظم بننے کے خواہش مندوں نے ان واقعات پر اظہار افسوس نہیں کیا۔ قیامت کی گھڑی میں الیکشن کی پڑی ہے۔





