عام انتخابات، روایتی حریف پھر مد مقابل

محمد ناصر شریف
ملک میں 8فروری 2024کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔موجودہ صورت حال کے تناظر میں کہاجاسکتا ہے کہ انتخابات میں مقابلہ روایتی حریفوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں ہی ہوگا۔ دونوں جماعتوں نے وزیراعظم کے لئے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے ۔ ایک جانب میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی بات کی جارہی ہے تو دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔پاکستان کی سیاست میں انتخابات کے اعلان کے بعد پہلی بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان نے 8فروری 2024کو ہونے والے عام انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے وفد نے خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے لاہور میں ملاقات کی۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں سندھ خصوصاً کراچی اور حیدرآباد میں ممکنہ انتخابی اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر معاملات زیر غور آئے جبکہ ملکی کی مجموعی سیاسی صورتحال اور سندھ میں بڑا انتخابی الائنس بنانے کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ پاکستان کے عوام کو موجودہ مسائل سے نکالنے اور پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گی۔ دونوں جماعتوں نے چھ رکنی کمیٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا جو صوبہ سندھ بالخصوص اس کے شہری علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے جامع چارٹر تیار کریں گی۔ کمیٹی دونوں جماعتوں کے درمیان اشتراک کے لئے حتمی تجاویز قیادت کو 10روز میں پیش کرے گی۔ بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن 8 فروری کا الیکشن مل کر لڑیں گی۔ اس موقع پر مصطفی کمال نے کہا کہ آج کوئی لین دین کی بات نہیں ہوئی بلکہ پورے ملک کی بات ہوئی، کوئی ذاتی بات نہیں ہوئی، عوام کی بات ہوئی ہے، نواز شریف دکھ کے ساتھ بات کر رہے تھے، انتخابی اتحاد وزارتوں کے لئے نہیں لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے ہوگا۔2013ء میں کراچی کی 20میں سے 17نشستیں ایم کیوایم نے جیتی تھیں، ہم 2013ء والی اپنی پوزیشن پر واپس جائیں گے، عوام کو دلدل سے نکالنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کوئی طاقت ور قیادت ہی اس بحران سے نکال سکتی ہے، نواز شریف کو ہر طرح کے مسائل سے نمٹنے کا تجربہ ہے، وہ اس خطے کے سب سے سینئر سیاستدان ہیں، ملک کو مضبوط اور مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ مسلم لیگ ن نے سندھ میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لئے بڑی انتظامی تبدیلی کرتے ہوئے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو پارٹی کا سندھ میں صدر مقرر کردیاہے جبکہ شاہ محمد شاہ مسلم لیگ ن کے نائب صدر ہوں گے۔پیپلز پارٹی کے رہنما سابق صوبائی وزیر سعید غنی نے مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے اتحاد پر فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پیر بھائی ہیں۔ ان کا اتحاد پرانا ہے ن لیگ پنجاب اور ایم کیوایم کراچی میں اپنی غیر مقبولیت سے پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد کوئی نئی بات نہیں ہے پیپلزپارٹی کیخلاف اتحاد بنانے والے پی پی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے مہم چلاکر نواز شریف کو ایک اور لاڈلا بنانے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، آصف زرداری کی خواہش ہے کہ وہ سندھ میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے ساتھ پنجاب کے قابل ذکر سیاسی گروہوں کے ساتھ انتخابی اشتراک کرکے جس میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی جماعت بھی شامل ہے بلاول بھٹو زرداری کی وزارت عظمی کیلئے راہ ہموار کریں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واضح طور پر گزشتہ روز کہا ہے کہ اس بار وزیر اعظم لاہور سے نہیں ہو گا، جس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کو وزیراعظم دیکھنا نہیں چاہتی، انہوں نے آصف زرداری اور نوازشریف کے رابطے کی خبر کو بھی پرانی قرار دیا اور سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کے سلوک کا بھی ذکر کیا۔ بلاول نے کہا کہ 8فروری تیر کی جیت کا دن ہوگا اور آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی شاندار کامیابی حاصل کریگی۔ بلاول بھٹو کے خطاب سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ وہ پی ٹی آئی سے ورکنگ ریلیشن شپ بناسکتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کو پاکستان کے عوام ہرگز معاف نہیں کریں گے لیکن ہر فرد تو 9مئی کی سازش میں ملوث نہیں تھا، اس لئے جو سازش میں ملوث نہیں ان کیلئے معافی کی گنجائش ہونی چاہئے۔ سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے کارکنان کو یہ نوید سنائی کہ 8فروری 2024کا سورج بلاول بھٹو کی فتح کا پیغام لیکر طلوع ہوگا۔ ہمارے مخالفین الیکشن میں کھڑے ہوں انہیں خوش آمدید کہیں گے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے وجود میں آنے والے اتحاد کی مشترکہ حکومت کے دوران بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے میں درمیان سرد،نرم اور گرم جاری رہا۔ دونوں جماعتیں آئی ایم ایف سے معاہدے اور ملکی معاشی صورتحال کی وجہ سے سخت دبائو میں ہیں۔تحریک انصاف نے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا نہ کیا گیا تو وہ جیل سے ہی قیادت کریں گے۔ امید تو نہیں کی جارہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں چیئرمین پی ٹی آئی کو باہر نکال کر ن لیگ یا پیپلز پارٹی کو مشکل میں ڈالاجائے گا۔ لیکن پاکستان میں کچھ بھی اور کبھی بھی ہوسکتا ہے اس لیے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ 8 فروری 2024کے انتخابات کے لئے کیسی پچ تیاری کی جانی ہے، گرائونڈ مینوں نے پچ کی تیاری شروع کردی ہے۔ ساتھ ہی ٹیموں کے انتخاب میں بھی حصہ بقدرِ جسہ ڈالاجا رہاہے ۔ کھلاڑی ادھر ادھر سیٹ کیے جارہے ہیں تاکہ تیار کی گئی پچ کے مطابق کھیلنے والے کھلاڑی بھی میسر ہوں اور میچ بھی ون سائیڈ نہ لگے اور شائقین ایک دلچسپ کے مقابلے کے بعد مطلوبہ ٹیم کو کامیاب ہوتا دیکھ سکیں۔





