Column

سوال تو ہو گا

صفدر علی حیدری
دنیا میں سوال بہت سارے ہیں مگر جواب بہت کم ۔۔۔ جناب امیر کا فرمان یاد آتا ہے
’’ عبرت کے مقامات تو بہت سے مگر عبرت حاصل کرنے والے بہت کم ‘‘
آج کل نگران وزیراعظم سے لمز یونیورسٹی میں کئے گئے سوالات کا بڑا چرچا ہے ۔ حسب توقع مختلف قسم کا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اسے بدتمیزی قرار دے رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اسے شعور کی بیداری اور جرات مندانہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال علم کی اساس ہے اور جامعات میں اگر سوالات کی حوصلہ افزائی نہ ہو گی تو پھر ان کو قید خانہ کہنا مناسب ہو گا۔ سوال تو ہو گا سوال تو ہوتا ہے، خواہ آپ خود کو سوالات کے لیے پیش کریں یا نہ کریں۔ اسلامی ریاست میں خلیفہ سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ آپ کی قمیص کیسے بن گئی۔ جناب امیر نے تو خود کو خود ہی احتساب کے لئے پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں ایک لباس اور ایک گھوڑے کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوا ہوں اگر یہاں سے جاتے ہوئے ایک بھی چیز میں اضافہ ہوا تو جان لینا میں نے خیانت کی ہو گی۔ کاکڑ صاحب سے کئے جانے والے سوال تو خیر جیسے بھی تھے، جواب بھی کیا کمال تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے منتخب کردہ شخص کی رعونت شاید ہی کسی کو بھائی ہو۔ اس بے چارے کو تو چھوڑئیے کہ ایسے لوگ ایسے ہی جواب دے سکتے ہیں۔ آئیں ماضی میں چلتے ہیں
ملک کے ایک کرتا دھرتا سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ آپ ملک کے لئے ضروری ہیں تو اس کا کیا جواز ہے آپ کے پاس۔ تو خود کو عقل کل سمجھنے والے شخص نے کیا خوب جواب دیا تھا
’’ بس میں نے کہہ جو دیا میں ضروری ہوں‘‘۔
اس سے بڑا جواب تو اسی صاحب نے ایک اور سوال کے جواب میں دیا تھا
’’ آپ نے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا، آپ اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کر سکے، آپ پر تنقید بھی بہت ہوئی، آپ نے اس سے کیا سیکھا،’’ یہی کہ انسان کو وعدہ نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔ ظاہر ہے جب سوال ’’ ڈھنگ ‘‘ کے نہیں ہوں گے تو جواب کیسے ڈھنگ کے ہو سکتے ہیں۔ ویسے سوال سے سوال کرنے والے کی قابلیت ظاہر ہوتی ہے تو کیا جواب دینے سے جواب دینے والے کی بھی لیاقت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹتا ہے۔ نعیم بخاری ایک پروگرام کیا کرتے تھے تو بعض سوالوں پر شرکاء "’’ پاس ‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ بلے باز بھی تو بعض اوقات گیند کو لفٹ کر دیا کرتے ہیں۔ تو کیا ہمارے یہ بڑے ایسا نہیں کر سکتے۔ ’’ نو کمنٹس ‘‘ کہہ دینے سے انسان اپنا قد بچا لیتا ہے مگر ۔۔۔۔ ہم اپنی برتری کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیں تب ناں۔ ( قبرستان میں قالین بھی اسی جذبے کے اظہار کی قبیح ترین صورت تھی ) جامعات میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے چنیدہ افراد کا جانا اور ان سے خطاب کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے ہاں مگر کسی نگران وزیراعظم کا جانا واقعی عجیب بات تھی۔ بات نہ بگڑتی اگر موصوف کچھ پھرتی دکھاتے ہوئے وقت پر پہنچ جاتے۔ مہذب معاشروں میں وقت کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے، وہاں ایسے واقعات شاذ ملتے ہیں کہ کوئی پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے۔ پھر جو جواب دیا گیا وہ ہرگز روا نہ تھا۔ نرم الفاظ میں اسے مذموم ہی کہا جائے گا۔ ایسے میں اسمبلیوں کے نوے دن میں الیکشن کیوں نہ ہوئے کا جواب تو ایک تازیانہ ہی تھا۔ وزیر موصوف پانی پر پانی پیتے رہے بجائے ڈھنگ کا جواب دینے کے ۔ کاکڑ صاحب کے ساتھ لمز میں کئے جانے والے سلوک کی خبریں سماجی ذرائع ابلاغ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ( یا پھیلا دی گئی )۔ ساتھ میں اس شخص کی ویڈیو بھی چلا دی گئی جو لیٹ پہنچا مگر اس کا فلگ شگاف نعروں سے استقبال ہوا تھا۔ انچارج وزیر اعظم کا چارج سنبھالتے ہی کاکڑ صاحب نے کپتان کے حوالے سے جو متنازعہ بیانات دئیے تھے، مجھے لگتا ہے ان نوجوانوں نے وہی بدلہ لیا ہے۔ اسی دوران ایک خبر یہ بھی آئی کہ سوال کرنے والے کو پولیس ڈرا دھمکا رہی ہے۔ پھر فورا ہی اس کی تردید بھی کر دی گئی کہ ان افراد کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا۔
اطہر شاہ خان جیدی کا با ادب با ملاحظہ ہوشیار یاد آیا۔ ایک فریادی نے زنجیر عدل ہلائی تو گھنٹی اس کے سر پر گری اور وہ جان بحق ہو گیا۔ ہمارے بڑوں کو بڑا شوق ہوتا ہے ہر جگہ اپنی موجودگی دکھانے کا۔ جیسے میاں نواز شریف اپنے ہاتھ سے سیلاب زدگان کا گھر بناتے پائے گئے تو مرحوم علامہ شاہ احمد نورانی سے رہا نہیں گیا۔
کیا وزیر اعظم کے پاس مملکت کا کوئی اور کام باقی نہیں بچا جو ۔۔۔
کسی طالب علم نے بھی کاکڑ صاحب سے کہا تھا کہ آپ یہاں کرنے کیا آئے ہیں۔
ہماری صحافت کا حال دیکھئے کہ ایک بڑے نیوز اینکر نے لمز کے طالب علم سے سوال کیا کہ جنرل باجوہ بھی تو تاخیر سے پہنچے تھے ان سے تو کسی نے تاخیر کی شکایت نہیں کی۔ لا حول ولا قوۃ ۔۔۔ قدرت نے اپنے نظام کو وقت کے تحت لا کر ہمیں وقت کی قدر و قیمت سکھائی ہے۔ سمجھ دار قوموں نے یہ راز جان لیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے ترقی پائی مگر ہم لوگ وقت کی قدر کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی کامیابی وقت کی پابندی کا نتیجہ قرار دی تھی ۔ کاش ہم بھی اس کی اہمیت سے آگاہ ہوتے فیس بک ( کتاب رو ) پر کسی دل جلے کے دو جملوں پر کالم کا اختتام کرتے ہیں۔ لمز کے طلبا نے کاکڑ کے کڑاکے نکال دئیے، ’’ لمز مت آنا ورنہ پمز جانا پڑے گا ‘‘۔

جواب دیں

Back to top button