Column

عطا اللہ عیسیٰ خیلوی

عامر جاوید ناصر

ناصر کاظمی نے کہا تھا
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ہم نے ٹھنڈی زمین پر ٹاٹ پر بیٹھ کر تختی لکھنا تو تھوڑا بہت سیکھ لیا تھا لیکن جب گانا سننے کی توفیق اور ہمت ہوئی تو سب سے پہلے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو سنا اور پھر انہیں ہی پیر مان لیا، پھر زندگی میں بڑے بڑے نامور گلوکاروں کو سننے کا موقع ملا مگر دل نامراد عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا ہی رہا۔ عطا ء اللہ خان نیازی اگست 1951ء میں عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے، یہ ان بستیوں میں سے تھی جہاں عشق اور گانا قباحت کی بات ہے۔ عطا 60ء کی دہائی میں نو عمری اور لڑکپن ہی میں ایک مجازی عشق کے ساتھ ساتھ گانے کے عشق میں بھی مبتلا ہو گئے۔ ویسے ناپسندیدہ ہونے کے باوجود یہ دونوں کام اس سرزمین میں انہوںنے کئے تھے کہ اکثر لڑکے بالے چڑھتی جوانی میں کچھ عرصے کے لیے ان دونوں کاموں کا شکار ہوتے تھے اور پھر جلد غم روزگار میں کھو کر اس سے توبہ تائب ہو جاتے تھے، لیکن عطا نے یہ روگ عمر بھر کے لیے مول لیے، یہ اسی شوق کا ہی اعجاز ہے کہ وہ آج تین نسلوں کا محبوب ٹھہرا ہے۔ 60 ء کی دہائی میں اس کی گائیکی کا شہرہ عیسیٰ خیل اور اس کے مضافات تک ہی تھا، یہ عطا کے لیے بہت کٹھن وقت تھا، عطا کی گائیکی ایک خود رو پودے کی طرح تھی، ایک عرصے تک فن گائیکی میں اپنی بے مائیگی کاوہ برملا اعتراف کرتا تھا۔ اس کی گائیکی اس کے شوریدہ جذبات، ناکامیوں، نامرادیوں سے دل پر پڑنے والی چوٹ کا ہی نتیجہ تھی۔ 70 ء کی دہائی کے اوائل میں عطا کی رسائی ریڈیو پاکستان بہاولپور تک ہوئی، وہاں پر اس نے وہ لوگ گیت گایا جو ایک عرصے تک اس کی پہچان رہا ’’ بالو بتیاں وے سپ مارو سنگلاں نال‘‘ اس زمانے میں پسماندہ دیہات میں ریڈیو بھی اتنا عام نہیں تھا اور لوگ گیت سنانے کے لیے عموما شام رات کو ہی ایک آدھ ہی پروگرام ہوتا تھا۔ بہرحال اس گانے نے عطا کو میانوالی اور سرائیکی وسیب میں پہچان اور شہرت بخشی لیکن اسے شہرت کے با م عروج پر پہنچانے کا سہرا رحمت گرامو فون فیصل آباد کے سر ہے۔ 1978ء میں ریلیز ہونے والی کیسٹس کے چار البمز نے، اس کو کراچی سے تور خم تک مشہور کر دیا۔ اس ابلاغ کا سبب عطا کی ڈرائیور برادری تھی اور پھر 1980ء تک عطا جب وہ اسلام آباد میں اٹھ آیا تھا، اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ میرا لاہور سے لکھا ایک خط، جس میں اس کا پتہ صرف عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اسلام آباد لکھا ہوا تھا، محکمہ ڈاک نے اس تک نہ صرف پہنچایا بلکہ عطا نے اس کا جواب بھی دیا۔ گانوں اور البمز کی تعداد کے حوالے سے گنیز بک آف ورڈ ریکارڈ میں اس کا نام درج ہے، لیکن عطا اس کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے بے شمار نادر ریکارڈ رکھتا ہے۔ عطا کے گانے میں سوز و درد کے طفیل اس کو درد کے سفیر کے لقب سے نوازا گیا، بلکہ عطا کے ایک دوست نے اس کے ایما پر بھری جوانی میں عطا پر ایک کتاب درد کا سفیر بھی لکھی، جو عطا کی مکمل سوانح عمری ہے۔ برصغیر کے کچھ نامور شعرا، جیسے ساحر لدھیانوی، حفیظ جالندھری، خمار بارہ بنکوی وغیرہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنی جنم بھومی کو ناموری عطا کی، لیکن جو شہرت عطا نے اپنی بستی عیسیٰ خیل کو بخشی اس کی کوئی مثال برصغیر میں نہیں ہے۔ اوائل زمانہ میں اس کے پرستاروں کی بڑی تعداد اس کے اپنے علاقے کے ہم زبان محروم لوگ ہی تھے، ٹرک برادری نے نہ صرف اس کی آواز کو پاکستان کے قریہ قریہ تک پہنچایا بلکہ صدر ایوب کے بعد یہ اعزاز صرف اسے حاصل ہے کہ اس کی تصویر ٹرکوں کے پیچھے بنائی گئی، جو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی کسی نہ کسی ٹرک کے پیچھے نظر آ جاتی ہے۔ عطا میں فطری طور پر ایک عجز اور انکسار پایا جاتا ہے، جو کہ روایتی طور پر اس کے قبیلے کے دیگر نامور صالحین میں بھی عنقا ہے۔ ہمارے لوک گیتوں کے اصل خالق یعنی شاعر عموما گمنام رہتے ہیں۔ عطا کی گائیکی کا ایک اعجاز یہ بھی ہے اس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے وسیب کے ان شاعروں کو بھی عزت اور ناموری بخشی، ملک آڈھا خان، سونا خان، بے بس مجبور عیسیٰ خیلوی، فاروق روکڑی اور افضل عاجز جیسے کئی شاعروں کی شہرت اور ناموری عطا کی گائیکی کی ہی مرہون منت ہے۔ ملکہ ترنم اور الزبتھ ٹیلر کی طرح عطا نے شادیوں میں بھی ریکارڈ قائم کیا۔ پانچ سات تو اعلانیہ کیں اور کچھ درپردہ بھی ہیں۔ عطا نے ایک دفعہ کھلاڑیوں اور سیاست دانوں کی طرح گائیکی سے ریٹائرمنٹ کا بھی اعلان کر دیا تھا، جو کہ غالبا کسی کمزور لمحے کی واردات تھی، جس پر بعد میں اس نے رجوع کر لیا۔ عطا کا کچی عمر کا عشق ہمیشہ اس کا ہمراز رہا اور لڑکپن کے اس عشق کے چرچے نصف صدی سے ہیں، مگر عطا کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس محبوب کو نامعلوم ہی رکھا۔ نامور لوگوں کے بدخواہ بھی ہوتے ہیں۔ عطا کے ساتھ ایک عجب واردات گاہے بگاہے یہ ہوئی ہے کہ یار لوگوں نے اس کی وفات کی خبر کئی بار اڑائی۔ عطا ایک عرصے سے عمران خان کا معتقد ہے اور اس نے پی ٹی آئی کیلئے کئی مقبول ترانے گائے۔ اس تعلق کے باوجود وہ خوش قسمت ہے کہ اسے پریس کانفرنس نہیں کرنی پڑی۔ گو اب عطاء اللہ کی صحت قابل رشک نہیں لیکن ابھی بھی سارا سال دنیا بھر میں اس کے پروگرام مقبول ہیں۔

جواب دیں

Back to top button