Column

منگل سنگھ دے ببلے شبلے تے ن لیگ کی لن ترانیاں

نذیر احمد سندھو
منگل سنگھ شراب خانے گیا تے سیل مین کو کہا منڈیا روپے دی شراب دے دے، وہ کہنے گا روپے دی شراب نہیں آندی، او یارا ہتھ تے پا دے ، اساں مچھاں نوں لانی اے بو، شو آنی چاہی دے، چڑھا اسیں آپے ای لینی اے، ببلے شبلے مار کے۔ یہی حال آج کل ن لیگ کا ہے۔8فروری 2024ء ، الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے صدر کی مشاورت اور سپریم کورٹ کے دبائو پر مقرر کر دی ہے۔ اس تاریخ کو الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں، خدشے کا اشارہ تو خود سپریم کورٹ نے دوران سماعت دیا ہے۔ چیف جسٹس کے الفاظ ’’ ہم خود واچ کریں گے اور کسی کو تاریخ بدلنے نہیں دیں گے‘‘۔ کچھ صاحبان کی رائے ہے سپریم کورٹ الیکشن میں سنجیدہ ہے، الیکشن ہونگے مگر کسی کی رائے نہیں الیکشن شفاف بھی ہونگے۔ میری رائے سپریم کورٹ کے خدشے کے ساتھ ہے، مجھے شک ہے سارا سیناریو scriptedہے۔ ایک دم کیا بھونچال آ گیا اچھی خاصی نگران حکومت گلشرے اڑا رہی تھی، سارے کام کر رہی تھی، ماسوائے الیکشن منعقد کرانے کے۔ چیف الیکشن کمشنر کو بھی آئین کی رکھوالی سوج گئی، کاکڑ کو خط لکھ ڈالے، آئین کے مطابق کابینہ غیر جانبدار ہونی چاہیے، آپ کی کابینہ میں فواد احمد فواد، احد چیمہ اور بہت سے وزیر ہیں، ان سے وزارت واپس لی جائے۔ کاکڑ نے خطوط کا جواب تک نہیں دیا، پریس کانفرنس میں سوال کے جواب میں فرمایا وزیر اعظم میں ہوں، کابینہ میں نے بنانی ہے، میں جانتا ہوں کون جانبدار ہے، کون نہیں اور چیف الیکشن کمشنر کے خط کا وہی انجام ہوا، جو صدر کے الیکشن کی تاریخ پر مشاورت والے خط کا ہوا تھا۔ کاکڑ نے خفیہ میسیج دیا، سکندر سلطان راجہ صاحب دونوں کی کرسیاں ہماری اہلیت کی وجہ سے نہیں، کسی کی نوازش ہیں اور نوازشات کرنے والی ہوا ہر جگہ گھس سکتی ہے، کیا معلوم کس کے لیے سرد ہو جائے اور کس کے لئے گرم، اپنی اپنی کرسی پہ بیٹھیں اور خط وط لکھنے کی پریکٹس دوبارہ نہ کریں۔ آئین یاد آئے تو پنجاب، خیبر پختونخوا والے الیکشن کا 90دن والا صفحہ پڑھ لینا، سنا ہے اب آرام ہے۔ بات تو منگل سنگھ اور ن لیگ کی کرنا تھی، یہ کاکڑ اور راجہ کا ذکر تو بس یونہی قلم کے چسکے کے لیے ہو گیا۔ موضوع کی طرف جانے سے پہلے تھوڑا سپریم کورٹ کا مزہ بھی چکھ لیتے ہیں۔ اچھی خاصی نگران حکومت بھاگ رہی تھی، یہ درمیان میں سپریم کورٹ کود پڑی۔ کاکڑ کہنے ہی والا تھا آپ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو، کہ سپریم کورٹ نے آئو دیکھا نہ تائو، الیکشن کی فائل جھاڑ پونچھ کر چیف کی میز پر رکھ دی اور چیف صاحب نے پھرتی دکھائی فوراً بینچ بنا کر سماعت کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔ سب فریقین کو نوٹس بھیج دئیے اور فریقین بھی عدالت پہنچ گئے۔ کسی نے تیاری کیلئے وقت نہیں مانگا اور تو اور فاروق ایچ نائک بھی پیپلز پارٹی کی نمائندگی کے لئے پہنچ گئے اور عدالت نے انہیں بھی پارٹی بنا لیا۔ سماعت شروع ہوئی ابتداء میں چیف جسٹس ایوان صدر پر خوب برسے اور فرمایا صدر صاحب کو تاریخ دینا چاہیے تھی، تاریخ نہ دے کر صدر صاحب نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ فرمانے لگے اگر صدر اسمبلی تحلیل کرتے وقت ہی تاریخ دے دیتے تو کوئی ایشو ہی نہ ہوتا، پھر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا صدر نے الیکشن کمیشن کو تاریخ کی مشاورت کے لئے خط لکھا تھا مگر سکندر اعظم سلطان ِ معظم راجہ پرتھوی نے کہا صدر صاحب کا تاریخ سے اب کیا تعلق، یہ ہمارا اختیار ہے، جب مناسب سمجھیں گے تاریخ دے دیں گے۔ صدر نے نگران حکومت کی وزارت قانون سے رائے طلب کی، انہوں نے بھی کہا آپ آرام کریں، آپ کا اختیار نہیں رہا، یہ اختیار اب الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 6کا خوفناک گولہ دونوں طرف پھینکا اور پھر الیکشن کمیشن کو حکم دیا آج ہی ایوان صدر جائیں اور صدر سے تاریخ پر مشاورت کریں اور ان سے تاریخ لیں۔ ہماری بندریا جو آڑیفیشل انٹیلیجنس کی پیداوار ہے، حاضر اور غائب ہونے کی صلاحیت بہرہ ور ہے، نے خبر اڑائی جناب راجہ صدر سے ملنے جانے کو اپنی توہین سمجھتے تھے اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھیجنا چاہتے تھے۔ اٹارنی جنرل کے سمجھانے پر راضی ہوئے اور باقی 4ممبران کے ہمراہ ایوان صدر جانے پر مجبور ہوئے۔ ہماری بندریا بھی گھومتی گھماتی ایوان صدر کے گیٹ سے حالت غائب میں اندر چلی گئی اور ایوان صدر کے ملاقاتی روم کی خالی کرسی بیٹھ گئی، نظر تو وہ آتی نہیں لہذا سب باتیں اس کی موجودگی میں ہوئیں، بندریا کی خبر ہے صدر سے مشاورتی ملاقات میں صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں تھا ایک اور صاحب بھی تھے، جن کی موجودگی کا سب کو احساس تھا مگر ان کو کسی کی موجودگی کا احساس نہ تھا، انہوں نے نہ کسی کو گھور کر دیکھا نہ کسی پر نظر التفات ڈالی، لہذا فریقین نے انہیں غیر جانبدار جان کر ایک گھنٹہ خوب بحث و تمحیص کی اور میٹنگ بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی۔ صدر صاحب بضد رہے اپنے خط پر مشاورت کی دعوت پر اور 6نومبر 2023کی تاریخ پر، الیکشن کمیشن کا موقف تھا آپ کی سب باتیں درست، جو ہو گیا اسے واپس تو نہیں موڑا جا سکتا، آگے بڑھیں۔ صدر نے کہا اب جو بھی ہو گا آئین سے ماوراء ہو گا، لہذا وہ اپنی قانونی ٹیم سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کریں گے۔ کمیشن والے تو جا چکے مگر غیر جانبدار صاحب وہیں بیٹھے رہے، پھر اٹھے صدر صاحب سے ہاتھ ملایا اور کان کے قریب جا کر کچھ کہا، جو ہماری بندریا نظر نہ آنے کے باوجود کچھ نہ سن سکی۔ کچھ دیر بعد اٹارنی جنرل ایک خط ہاتھ میں تھامے دوبارہ آئے اور صدر صاحب 8فروری2024ء پر متفق ہو گئے، 8ہو یا11فروری فرق کیا، ماسوائے 11فروری الیکشن کمیشن نے دی تھی اور 8صدر نے۔ یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے سپریم کورٹ کو ایک دم بھولا، بسرا ترانا الیکشن الیکشن کیوں اور کیسے یاد آ گیا، قارئین! بات تو چھپانے کی ہی مگر چلو بتائے دیتا ہوں۔ آئی ایم ایف کا وفد آ چکا ہے، دو ہفتے کا قیام ہے اور ان کا گراس روٹ لیول سے جاننے کا پروگرام ہے، کیا سیاسی معاشی استحکام کی طرف کوئی پیشقدمی ہوئی، کیا الیکشن کرانے میں مقتدرہ سنجیدہ ہے، اسی وفد کی رپورٹ پر اگلی قسط نگران حکومت کو ملنی ہے اور تیسری منتخب حکومت کو، لہذا الیکشن کا گانا بجانا پڑا اور یہ سب کچھ سکرپٹ کا حصہ ہے۔ اب چلتے ہیں کالم کے اصل ٹاپک کی طرف اور ن لیگ تے منگل سنگھ دا ٹانکا جوڑنے آن۔8فروری کو الیکشن منعقد ہونگے، آپ سب جانتے ہیں۔ ن لیگ سمیت سب پارٹیوں نے پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواستیں طلب کر لی ہیں۔ ن لیگ کہہ رہی ہے ہمارا ٹکٹ، ٹکٹ نہیں اسمبلی کی پکی سیٹ ہے، کھل کے چندہ دیو، میاں دے جلسے کرائو، الیکشن تے کھل کے خرچہ کرو، میاں تے مریم دی کھل کے پبلسٹی کرو، کسی پیر کولوں دعا کرانے کی ضرورت نہیں، کسی مولوی سے خطبے کرانے کی ضرورت نہیں، ووٹر کے گھر جانے کی بھی ضرورت نہیں، بس الیکشن والے دن آپ کے کیمپوں میں رونق ہونی چاہئے، ووٹ بے شک نہ دیں، ووٹ ہم نے خود ہی ڈال لینے ہیں۔ خرچے کی فکر نہ کریں، اسمبلی کی سیٹ پکی کرو، میاں دے نعرے وجائو، خرچہ دس نال ضرب لا کے واپس کراں گے۔

جواب دیں

Back to top button