Column

ناقابل شکست کشمیر اور فلسطین

طارق خان ترین
ایک ناقابل شکست قوم جو فلسطین کے عرض مقدس پر آباد ہے اور ایک قوم جو کشمیر کے خوبصورت وادیوں میں آباد ہے، دونوں اقوام نے جس جانفشانی سے اپنے اپنے ملکوں کے لئے قربانیاں دی ہیں۔ ایسی کون سی تاریخ ہوگی، ایسی کون سی کتابیں ہونگی جن میں انہیں بہادری سے منسوب نہ کیا گیا ہو۔ فلسطین پر اسرائیلی بربریت، وحشیانہ تشدد، استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہر انسان واقف ہے، ایسا کون سا ظلم دنیا میں باقی رہ گیا ہے جو مظلوم فلسطینیوں پر نہیں کیا گیا ہو۔ اس وقت فطری طور پر ہر انسان فلسطین پر ظلم و زیادتیوں سے غم میں نڈھال ہے۔ بالکل ایسے ہی بھارتی مظالم سے کون نا آشنا ہوگا، جنہوں ہمیشہ سے مظلوم کشمیریوں کو تلوار کی دھار پر پرویا ہوا ہے۔ جنگی جنون کے خواہشمند بھارت نے مظلوم اور نہتے کشمیریوں کو کبھی گولیوں سے تو کبھی توپوں کے بارود سے لہو لہان کیا ہے۔ جس پر عالمی قوتیں بشمول اقوام متحدہ کے، سب دیکھتے ہوئے، سنتے اور محسوس کرتے ہوئے مجرمانہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر بے بسی کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کہنے کو تو کہہ بھی جاتے ہیں، کبھی کبھار دل پر پتھر رکھ کر مذمت بھی کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ دنیاوی طاقتیں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت فراہم کریں۔ 27اکتوبر 1947ء کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار کر غیر قانونی قبضہ کرلیا جو تا حال قائم ہے۔ اُس دن کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے ہی یکسر محروم کر دیا گیا۔ ان محرومیوں کو پچھلے 27اکتوبر تک 76سال مکمل تو ہوگئے مگر مظلوم کشمیریوں کی آہ و زاری کسی کو بھانپ نہ سکی۔
قارئین کرام 1947ء کے 27اکتوبر سے لیکر آج تک ہر سال اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے کشمیری عوام پوری پر باور کراتے آ رہے ہیں کہ ہماری مغلوبیت کے 76سال تو پورے ہوگئے مگر اے دنیا والو! تمہارے وعدے وفا نہ ہوسکے کہ جن سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر آنکھوں میں دھول جھونکتے ہو۔ کیا آزادی کا حق صرف اور صرف ان قوموں کو حاصل ہے جو اپنے وجود میں دوسروں کے لئے محض تباہی کے سبب بنتی ہوں یا پھر دوسروں کی تباہی پر تماشہ دیکھنے کی حد تک محدود ہوں؟ کیا بھارتی مظالم، جن پر اقوام متحدہ خود بھی کئی مرتبہ اعتراف کر چکی ہے کہ بھارت مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرتکب ہورہا ہے؟ اس پر خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر تماشائی بننا ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟۔
مقبوضہ کشمیر میں کل انسانی آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ اڑتالیس ہزار نو سو پچیس ہے، جس کے لئے غاصب بھارت نے 9لاکھ فوجی کشمیر میں اتار رکھے ہیں۔ 1947ء سے لیکر آج تک ہزاروں کی تعداد میں بزرگ، جوان، مرد و عورت سمیت بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آج تک یہ جذبہ روز اول سے تر و تازہ ہونے کے ساتھ ساتھ سورج کی طرح اقوام عالم پر عیاں ہے۔ مظلوم کشمیریوں کے گھر بار، مال و اسباب، یہاں تک کہ آرٹیکل 370اور دفعہ 35کے تحت جو مراعات انہیں حاصل تھیں انہیں بھی ختم کر دیا گیا۔ مظلوم کشمیریوں پر بھارتی قبضے کے تحت وہاں کا نقشہ بدل دیا گیا یہاں تک کہ بھارت نوآبادیاتی منصوبے کے تحت کشمیریوں کا حسب و نسب بھی تبدیل کرنے کے درپے ہے، مگر مملکت پاکستان اپنی آزادی سے لیکر آج تک کشمیریوں کی ہر محاذ پر حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اقوام عالم کو بھارتی ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے باور کرا کر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک پرعزم جدوجہد کی ہے اور یہ جدوجہد جاری رہیگی۔
یہ جدوجہد قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات کے تحت پروان چڑھتی رہے گی۔ قائدؒ نے کہا تھا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ ان کا موقف کشمیر کے حوالے سے بالکل واضح اور غیر مبہم تھا۔ قائداعظمؒ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی منشاء کے مطابق چاہتے تھے۔ اِس میں کوئی دو آرا نہیں کہ کشمیریوں کے دل1947ء سے پہلے اور بعد میں بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے اور آج بھی دھڑکتے ہیں۔ لیکن تقسیم کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں، کانگریسی رہنمائوں اور سب سے بڑھ کر برطانوی وائسرائے کی ملی بھگت کی وجہ سے جموں و کشمیر آج بھارتی افواج کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ اس کے باوجود کہ 1948ء میں بھارت کے اس وقت کے وزیرِاعظم خود مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گئے، جہاں کثرتِ رائے سے قرار داد منظور کی گئی، جس کے مطابق کشمیری عوام کو استصوابِ رائے سے اس مسئلے کو حل کرنے کا حق دیا گیا، بھارت کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو چنداں اہمیت نہیں دی گئی۔ وطنِ عزیز پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف ہمیشہ اصولی اور قانونی رہا ہے اور اُس نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین مسئلہ کشمیر پر1948، 1965،1971کی تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں، جو کہ کشمیریوں کے لئے پاکستان کی اصولی دلیل ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
27 اکتوبر2023ء کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا گیا، جس میں ملک کے طول و ارض سے ہزاروں کی تعداد نے ریلیوں، سیمیناروں اور احتجاج کی شکل میں شرکت کرتے ہوئے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان سے لیکر گلگت بلتستان تک ملک پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے گونج اٹھا۔ میں صرف یہاں پر اپنے صوبے بلوچستان کا ذکر کرونگا جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ، پشتون اور دیگر اقوام کے غیور عوام نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ مجموعی طور پر 24ہزار سے زائد ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے ریلیوں، سپیچز، اور سیمناروں کے توسط سے شرکت کی۔ یہ وہی بلوچستان ہے، جہاں بھارت نے ہمیشہ سے مداخلت کر کے شدت پسندی اور تخریب کاری کو ہوا دی۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن یادو کو رنگے ہاتھوں پکڑنا ہے۔ مگر بلوچستان کے عوام غیرت مند عوام ہیں، جنہوں نے ہمیشہ ملک پاکستان کے لئے اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی ناقابل تسخیر وفاداری جاری رکھی ہے اور یہ وفاداری کشمیر اور فلسطین کی آزادی تک اور اس کے بعد بھی جاری رہے گی، ان شاء اللہ۔

جواب دیں

Back to top button