کسان رُل گئے

رفیع صحرائی
ملکی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری قریباً ستر فیصد آبادی کسی نہ کسی حوالے سے زراعت سے منسلک ہے۔ مگر دیکھا جائے تو گزشتہ چند سالوں میں زراعت کو انتہائی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے کاروبار نے زرعی زمینوں کو تیزی سے نگلنا شروع کر دیا ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگتی ہائوسنگ سوسائٹیز نے زمینوں کے ریٹ آسمان پر پہنچا دئیے ہیں۔ زمیندار بھی منہ مانگی قیمت پر زمینیں فروخت کر کے سرمائے کو کسی دوسرے منافع بخش کاروبار میں لگا کر کم محنت سے زیادہ منافع کمانے کی طرف راغب ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں زرعی رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ رہی سہی کسر حکومتی پالیسیاں پوری کر رہی ہیں جنہوں نے کسانوں کو مراعات دینے کے بجائے ان کا استحصال شروع کر رکھا ہے۔ درجنوں مرتبہ کسان اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکلے ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے ان کی مشکلات میں کمی نہیں کی۔
ہمارے کسان جیسا جگرے اور ظرف والا انسان دنیا بھر میں کہیں نہیں ملے گا۔ اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے زمین میں ہل چلاتا ہے۔ اپنا ٹریکٹر ہو تو مہنگا تیل اس میں ڈالتا ہے۔ ذاتی ٹریکٹر نہ ہو تو بھاری معاوضہ دی کر ہل چلواتا ہے۔ بیج ڈالنے کے بعد سہاگہ پھیرتے وقت اچھا خاصہ خرچہ کرتا ہے۔ پرندے بیج کی کافی مقدار کھا جاتے ہیں جسے صبر کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ زمین سے فصل باہر آتی ہے تو ایک مرتبہ پھر پرندوں کی زد میں ہوتی ہے مگر کسان حوصلہ نہیں ہارتا۔ فصل کو پانی لگاتا ہے جس پر کافی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ کھاد اور سپرے پر بھاری رقم خرچ کرتا ہے۔ فصل قدآور ہو جاتی ہے تو گزرتے ہوئے مویشی چلتے چلتے کافی نقصان کر جاتے ہیں۔ فصل میں گھاس کھودنے والے بھی نظر بچا کر اپنا کام کر لیتے ہیں۔ فصل سے جڑی بوٹیوں کی تلفی پر روپے خرچ ہو جاتی ہیں۔ جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو معاملہ موسم کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ زیادہ بارشیں یا خشک سالی فصل کی تباہی کا سامان پیدا کر دیتے ہیں۔ تیار فصل کو کٹوانے پر اچھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد جب اناج کا ڈھیر کھیت میں ہی لگ جاتا ہے تو گائوں کے کمی یعنی کمہار، ماچھی، نائی اور مستری وغیرہ کھیت میں ہی پہنچ جاتے ہیں جنہیں ان کے حصے کا اناج دیا جاتا ہے۔ پٹواری کے گھر میں ’’ فصلانہ‘‘ کے نام پر کھیت سے ہی اناج کی بوریاں روانہ کی جاتی ہیں۔ آخر میں اپنی سال بھر کی ضروریات کے لیے اناج گھر میں بھیج کر باقی اناج آڑھتی کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے اور کسان اللّٰہ کا شکر ادا کرتا ہے۔
اگر کسان متموّل ہے ( جو کہ بہت کم ہوتا ہے) تو اس کو فصل سے بچت کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔ اکثر کسان فصل کی بوائی سے لے کر کٹائی تک آڑھتی سے قرض لے کر فصل پر خرچ کرتے ہیں۔ جب فصل کٹ جاتی ہے تو مقروض کسان قرض دینے والے آڑھتی کو فصل فروخت کرنے کا پابند ہوتا ہے کیونکہ اس آڑھتی نے فصل پر اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ آڑھتی مارکیٹ ریٹ سے سستے داموں فصل خریدتا ہے اور اس طرح سے کاشتکار کی بچت میں کمی ہو جاتی ہے۔
کسان اپنی محنت سے فصل اگا کر پورے ملک کے لیے خوراک کا بندوبست کرتا ہے۔ ملک کی معیشت اور خوشحالی میں نمایاں حصہ لیتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو کسان یا کاشتکار ملک کا قابلِ فخر انسان ہے۔ اس لحاظ سے وہ حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات کا حق دار بنتا ہے مگر بدقسمتی سے وہ حکومتی عدم توجہ بلکہ مکمل طور پر نظراندازی کا شکار ہے۔ وہ سستی بجلی کا مستحق ہے مگر اس سے محروم ہے۔ ہمارے پڑوسی بھات نے کسانوں کو اس قدر سہولیات فراہم کر رکھی ہیں کہ وہاں کا کسان ہمارے کسان سے تین گنا پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں نگران وزیرِ اعلیٰ جناب محسن نقوی تشریف لے گئے تو انہوں نے یہ جان کر انتہائی مسرت اور فخر کا اظہار کیا کہ ہمارے سائنسدانوں نے تین گنا پیداوار حاصل کرنے والا بیج حاصل کر لیا ہے لیکن انہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ یہ تین گنا فصل حاصل کرنے کے لیے کسان کی راہ میں کتنی رکاوٹیں حائل ہیں۔
سب سے پہلے تو اصل بیج کا حصول ہی اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جگہ جگہ جعلی بیج فروخت ہو رہا ہے جو فصل کی پیداوار کو انتہائی متاثر کرتا ہے۔ مہنگی بجلی اور مہنگا تیل ہمارے کسان کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ ہیں۔ فصلوں کو نقصان دہ حشرات سے بچانے والی جعلی ادویات کی مارکیٹ میں بھرمار ہے جو اصلی پیکنگ میں بیچ کر صرف چند سو روپے فی بوتل منافع کے لالچ میں نہ صرف کسان بلکہ ملکی پیداوار کو بھی تباہ کرنے کی گھنائونی کوشش ہے۔ فصل کی بوائی کے وقت کھاد ایک ضروری عنصر ہے۔ عین وقت پر کسان کے لیے کھاد کا حصول مشکل ترین بنا دیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ آج کل ہو رہا ہے۔ کاشتکار رقم ہاتھ میں لیے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر انہیں یوریا اور ڈی اے پی کھاد نہیں مل رہی۔ ہاں البتہ یہی کھاد بلیک میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ جو چھوٹے کسانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ یہی وجہ ہے آلو اور گندم کی فصل کے شدید متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ بیج، کھاد اور سپرے کا مسئلہ چھوٹے کسانوں کو ہی درپیش ہوتا ہے۔ بڑے زمیندار تو وقت سے بہت پہلے ہی یہ چیزیں خرید لیتے ہیں یا کمپنی ریٹ پر اسٹاکسٹ حضرات کو مطلوبہ مقدار کی رقم جمع کروا دیتے ہیں اور کمپنی ریٹ پروقتِ ضرورت مال اٹھا لیتے ہیں۔
گندم کی فصل مارکیٹ میں آنے کے بعد حکومتی احکامات پر اسسٹنٹ کمشنر حضرات چھاپے مار کر کسانوں اور زمینداروں کے گھروں میں ضرورت سے زائد مقدار میں پڑی گندم زبردستی اٹھوا لیتے ہیں۔ آج کسان مشکل میں ہے۔ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کھلے عام جاری ہے لیکن سب پتا ہونے کے باوجود ان ناجائز فروشوں کے خلاف نہ تو پولیس کوئی کارروائی کر رہی ہے اور نہ ہی اسسٹنٹ کمشنر صاحبان اپنے دفاتر سے نکلنے کو تیار ہیں۔ وہ شاید حکومتی احکامات کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں کبھی بھی نہیں ملیں گے۔ کیونکہ حکومتی زعما کو کسان کو سبسڈی یا سہولیات مہیا کر کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں تو اناج کی دوسرے ممالک سے درآمد میں کمیشن اور کک بیکس سے فائدہ ہے۔ رہی ملکی پیداوار اور کسان کی مشکلات، تو وہ جائیں بھاڑ میں۔





