Column

حضرت سلطان المشائخ خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی دہلوی

ضیاء الحق سرحدی
یہ ماہ ربیع الثانی بھی اپنی فضیلت کے اعتبار سے منفرد نورانیت سے معمور مہینہ ہے ربیع الاول میں اللہ کا نور رسالت کا جامہ زیب تن فر ما کر پردہ دنیا پر جلوہ گر ہوا جس کی جلوہ گری نے تمام عالمین کو جگمگا دیا یہ ظل الٰہی تھا مگر اللہ نے حضور سرور عالمین کی دو کرنیں امت میں محبوبیت کے درجہ پر فائز فر ما کر دنیائے انسانیت پر احسان عظیم فرمایا جن میں حضرت سید نا غوث الاعظم ( محبوب سبحانی ) اور دوسری حضرت سید محمد نظام الدین ( محبوب الٰہی ) یوں تو نبوت کا دروازہ حضور خاتم النبین ﷺ پُر نور کے بعد تا قیامت بند ہو گیا مگر کار رسالت سینہ بہ سینہ خاصان خدا کے ذریعے جاری و ساری ہے ایک سے ایک بڑھ کر اولیا ء اللہ آئے اور تبلیغ اسلام کا کام انجام دے کر اپنے رب سے واصل ہوتے رہے مگر ان کے قائم شدہ سلسلے کم و بیش آج تک بلکہ رہتی دنیا تک معرفت کی روشنی سے عالم کو جگمگاتے رہیں گے جنوب مشرقی ایشیاء میں با العموم اور بر صغیر پاک و ہند میں با الخصوص اولیائے کرام ، صوفیائے عظام اور بز رگان دین نے اسلام کی تبلیغ اشاعت کے لئے نمایاں کردار ادا کیا ہے طریقت کے چاروں سلاسل سے فیض یاب بزرگوں نے اس خطے میں اشاعت دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں ان عظیم المرتبت ہستیوں کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا نا چیز فقیر اور خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیںیہ تو میرے مرشد حق با با بر کا تہم کی مجھ پر خاص نگاہ کرم ہے کہ مجھے پہلی مرتبہ1999ء اور پھر دوبارہ ماہ اکتوبر 2004ء میں حضرت سلطان المشائخ خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی دہلوی کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوا دل میں کافی عرصے سے یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ حضرت امیر خسرو قطب الاقطاب اور چراغ دہلوی کے دربار پر حاضری دوں اور ان کے مقدس مقامات کے مناظر اپنے دل کی تختی پر نقش کروں یہ دعا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منظور ہوئی، میرے مخلص اور محسن مرشد حق با با بر کا تہم کی کوششوں سے میرا نام بھی زائرین میں شامل ہو گیا وہاں پہنچ کر جو قلبی و روحانی سکون ملا و ہ بیان سی با ہر ہے حالانکہ اس سال بھی راقم کو نئی دہلی ( انڈیا) سے دیوان سید علی موسیٰ نظامی سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت سید نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کی طرف سے عرس شریف کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے آستانہ نظام الدین اولیاء پر ہر روز بے شمار زائرین و عقیدت مند ملک و بیرون ملک سے حاضر ہوتے ہیں اور گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ واپس جاتے ہیں بھارت میں یہ دیکھ کر اور جان کر دل کو بہت دُکھ ہوا کہ یہاں کی اکثر مسجدیں ویران پڑی ہوئی ہیں یہاں پر مسلمانوں کے پاس اتنا سرمایہ بھی نہیں کہ وہ اپنی مساجد یا مدارس پر لگائیں حکومت بھی اس حوالے سے چشم پوشی کرتی ہے حتی کہ جامع مسجد فتح پوری جو کہ اوقاف کی تحویل میں ہے یہ بھی کافی مسائل سے دوچار تھی جامع مسجد فتح پوری کی لائبریری دیکھی جو کہ ایک قدیم لائبریری ہے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی روشن دلیل ہے جب مجھے معلوم ہواکہ یہاں پر دیگر مساجد اور مہر ولی جہاں قطب مینار ہے کے علاقے میں بیسیوں مساجد غیر آباد پڑی ہیں اور ان کی حالت جو کہ ناگفتہ بہہ ہے تو دل خون کے آنسو رویا جبکہ پاکستان کے اندر جتنے مندر اور گردوارے ہیں ہم ان کا خیال رکھتے ہیں یہ ایک نا قابل تر دید حقیقت ہے کہ حضرات اولیائے کرام کی خانقاہیں و درگاہیں ہر دور میں اشاعت اسلام اور اصلاح سیرت و کردار کا مرکز رہی ہیں مگر افسوس کہ انقلابات زمانہ کی بدولت آج ان مقدس خانقاہوں میں علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کی وہ فیض رسانیاں منقود ہو چکی ہیں جو صرف اور صرف انہیںخانقاہوں سے طالبان حق کو حاصل ہو تی تھیں اللہ تعالی کی ذات ہی یکتا اور واحد لا شریک ہے راہ حق میں ہمیشہ تبارک و تعالی کے نیک بندوں نے دنیاوی نمود و نمائش سے بے نیاز ہو کر زندگی کا ہر لمحہ دین و اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کے لئے قربان کر رکھا تھا ا س مشن میں صوفیائے کرام و اولیائے کرام جیسی بلند و با لا ہستیاں شامل تھیں کہ جنہوں نے عالم اسلام میں اسلام کا پرچم بلند رکھتے ہوئے وقت کے ہر فرعون اور یزید کا سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مردانہ وار مقابلہ کیا اور کامیابی سے ہم کنار ہوتے رہے ہیں بر صغیر کی تاریخ اس بات کی عیاں ہے کہ حضرت خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری ،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی ، نورالعارفین حضرت بابا فرید الدین مسعودی گنج شکر، حضرت علاو الدین احمد صابر کلیئر شریف ، حضرت سلطان المشائخ خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی دہلوی ، حضرت عثمان المروندی المعروف لعل شہباز قلندر ، حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش، حضرت بری امام سر کار ، حضرت بہائوالدین ذکریا ملتانی ، حضرت پیر و مرشد سید عبدا لرحمان شاہ با با چشتی صابری، تمبر پورہ شریف اور پیر و مرشد زینت الفقرائ حضرت سید مستان شاہ سر کار حق با با چشتی صابری کی شب و روز محنتوں کا نتیجہ تھا کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ بزرگان دین اور اولیاء کرام کا کردار نہ صرف بر صغیر پاک و ہند میں بلکہ پورے عالم اسلام میں قابل تحسین رہا ہے ان ہی میں مذکورہ دو منفرد آفتاب محبوب سبحانی اور محبوب الٰہی یکے بعد دیگر دنیائے آسمان پر جلوہ گر ہوئے سلسلہ چشتیہ میں اس آفتاب محبوب الٰہی نے بر صغیر ہند میں دینی تبلیغ اور روحانیت کا علم اس شان سے بلند کیا کہ متحدہ ہند کا گوشہ گوشہ اس کے زیر نگیں آگیا بلکہ چشتیہ سلسلے نے ہندوستان کی سرحد توڑ کر مملکت چین میں داخل ہو کر دو خانقاہیں چشتی نظامی قائم کر دیں جو آج بھی قائم ہیں جس کے سر براہ محبوب الٰہی کے خلیفہ مجاز اور بزرگ سودا گر حضرت سالار ہین ین تھے حضرت محبوب الٰہی نسبت کے اعتبار سے حسینی سادات سے ہیں اور ان کا سلسلہ 20 واسطوں سے سر کار دو عالم حضرت محمد ﷺ تک بذریعہ حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ بنت رسول ﷺ سے جا ملتا ہے سیدنا امام حسنؓ و سید نا امام حسینؓ اگرچہ شان مولا علی ابن ابی طالب ہیں لیکن دنیائے اسلام میں دونوں شاہزادگان ابنان رسولؐ اللہ سے معروف ہیں حضرت محبوب الٰہی کے آبائو اجداد چنگیز خاں کی تخت و تا راج سے متاثر ہو کر بخارا سے ہجرت فر ما کر ملک ہند میں یوپی کے ایک شہر بدایوں میں جو اس وقت اسلام کا گہوارہ تھا مستقل قیام فر ما یا حضرت محبوب الٰہی کی پیدائش اسی شہر میں 636ھ میں ہوئی والد ماجد سید خواجہ احمد کا پہلے ہی وصال ہو گیا تھا اس لئے پرورش کا سا را بوجھ والدہ ماجدہ سیدہ بی بی زلیخا کے سر آگیا آپ کی والدہ ماجدہ اس وقت کی ولیہ کاملہ تھیں لہذا آپ کی پرورش اور علم کے حصول میں فقر و فقہ کشی کا ڈیرہ تھا مگر حصول علم میں والدہ ماجدہ نے کوئی کمی واقع نہیں ہو نے دی آپ نے 12سال کی عمر میں اس وقت کے تمام مروجہ علوم میں مکمل دسترس حاصل کر لی اور آپ کو اس وقت کے کاملین اساتذہ و اکابرین پر آپ کو فوقیت تھی اس کے بعد آپ نے میدان معرفت کی سمت قدم بڑھا یا اور ترقی کی تمام منازل طے فر مانے لگے لیکن ان منازل کو طے کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے واسطے بھی کسی رہنمائی کی ضرورت تھی چنانچہ اللہ تعالی کی حمایت شامل حال تھی تو آپ کا قلبی میلان حضرت شیخ الاسلام با با فرید الدین گنج شکرکی طرف ہو ا اور آپ نے با با صاحب کے حضور حاضر ہو کر قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ادھر بابا صاحب بھی حکم خدا وندی سے آپ کے منتظر تھے جس سے آن ہی آن میں تمام رکاوٹیں دور ہو گئیں اور چند دنوں میں ہی بیعت و خلافت خاص عطا فر ما دی اور تحریری خلافت نامہ تیار کرا کر ہانسی جانے کا حکم دیا کہ میرے خلیفہ جمال الدین سے اس پر مہر ثبت کرا لو جمال الدین نے فر ما یا ۔’’ خدائے جہاں راہِ ہزاراں سپاس کہ گوہر سپردا بگوہر شناس‘‘ ( تمام جہانوں کے مالک کے لئے ہزار شکر ہے کہ گوہر اس شخص کے حوالے کر دیا گیا ہے جو کہ گو ہر شناس ہے)۔ لہذا یہ مرحلہ بھی گزر گیا اور مرشد پاک نے دہلی میں سلسلے کو پھیلانے کا حکم صادر فر ما یا آپ کو خلق خدا سے سخت اجتناب تھا اس حکم پر آپ کو تامل ہوا تو با با صاحب نے آسمان کی طرف رخ کر کے فر ما یا اے اللہ تیرے حکم سے نظام کو تیرے بندوں کی بھلائی کے لئے چن لیا ہے اب اسے تیرے حوالے کرتا ہوں کہ یہ اپنے مقصد کو پہنچے اور وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک با با نظام الدین کے حلقہ بگوش اور عقیدت و محبت کرنے والا ایک ایک کر کے جنت میں نہیں چلا جائے گا یہ بندہ جنت میں قدم نہیں رکھے گا سبحان اللہ! ایسے عظیم پیر کا مرید بھی عظیم الشان ہے کہ ان کے معتقدین کو جنتی ہونے کی بشارت دی لہذا سلطان المشائخ محبوب الٰہی نے اسی قول کے مطابق ہر خاص و عام کیلئے تخصیص کو با لائے طاق رکھ کر سلسلہ چشتیہ کو عام کر دیا یوں اللہ اپنے تمام بندوں سے محبت فر ما تا ہے لیکن جو بندے اس کے احکامات کو اس کے احکام کے عین مطابق پورا کرتے ہیں وہ اللہ کے خاص الخاص ہو جاتے ہیں دنیا میں ہر شے کو ان کے لئے مسخر کر دیا جاتا ہے محبوب الٰہی کے دستر خواں کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ ہمہ اقسام کی اشیاء موجود ہوتی تھیں شاہ و گدا بیک وقت ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کرتے تھے کیونکہ کھانا کھانے کے لئے کوئی قید و بندش نہ تھی اہل ہنود بھی بکثرت موجود ہوتے تھے سیکڑوں بلکہ ہزار ہا افراد روزانہ شکم پری کرتے تھے اور حضرت خود ظہر سے قبل جو کے آٹے کی روٹی، جس میں بھوسی برابر کی ملی ہوتی تھی، اُبلے ہوئے سالن سے تین چار لقمے نوش فرماتے تھے حضرت سلطان المشائخ نے کبھی بھی کسی بادشاہ سے ملاقات نہیں فرمائی جبکہ نذرانوں کا یہ عالم تھا کہ اشرفیوں اور رائج الوقت روپوں کی تھیلیاں و طباق آتے مگر چند ہی لمحوں میں مساکین و ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے لئے تقسیم فر ما دیتے محبوب الہی کی قربت و خدا اور رسولؐ اللہ میں حضرت خواجہ امیر خسرو اور حضرت بو علی شاہ قلندر پانی پتی کا وہ واقعہ جو قلندر صاحب نے بزم حبیب ﷺ کی مجلس قدسی میں ملاحظہ کیا اور امیر خسرو صاحب نے اپنے شیخ کا یہ مرتبہ اختصاص اپنی کھلی آنکھوں سے ملاحظہ فر ما یا تو بے ساختہ و فی البدیہ کہہ اٹھے کہ ’’ خدا خود میر مجلس بو داندر لا مکاں خسرو محمد شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم ‘‘۔ حضرت محبوب الٰہی کی بارگاہ جلال میں حضرت امیر خسرو کو کیا مقام حاصل تھا اس کا اندازہ حضرت نظام الدین اولیاء کے اقوال مبارکہ سے ہو تا ہے آپ فر ما یا کرتے تھے: اگر قیامت میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ نظام الدین تو دنیا سے کیا لے کر آیا ہے تو میں عرض کرونگا کہ ’’ ترک کے سینے کا سوز لا یا ہوں‘‘۔ حضرت محبوب الٰہی حضرت امیر خسرو کو کبھی ترک اور کبھی ترک زادہ کہہ کر پکارتے تھے، معتبر روایت ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کبھی کبھی ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اے اللہ، اس ترک کے سوز دراں کے طفیل مجھے بخش دے‘‘ امیر خسرو جس وقت چاہتے بلا تکلف اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو حضرت نظام الدین اولیاء کے مریدوں میں امیر خسرو کے سوا کسی کو حاصل نہیں تھا ایک بار حضرت محبوب الٰہی نے حضرت امیر خسرو کے بارے میں یہ شعر برسر مجلس پڑھا اور اپنی بزرگانہ محبت کا اظہار اس طرح فر مایا۔
گر بدائے ترک تر کم آرہ بر تارک نہند
ترک تارک گیرم و ہر گز نہ گیرم ترک ترک
( اگر میری پیشانی پر آرہ رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ اپنے ترک ( خسرو) کو چھوڑ دو تو میں اپنی پیشانی چھوڑ دوں گا مگر اپنے ترک کو ہر گز نہیں چھوڑوں گا )
پھر ایک موقع پر اس مشہور زمانہ منقبت کا مصرع ہے جو حضرت امیر خسرو نے اپنے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی شان میں کہی تھی، اس مصرع میں اہل ایمان کی روحانی طاقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ
’’ چھاپ تلک سب چھین لی موسے نیناں ملائے کے ‘‘
( وہ تیری ایک نظر کیا تھی کہ جس نے میرے ماتھے سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالیں )
سیر الاولیاء کے منصف سید امیر خور د تحریر کرتے ہیں کہ حضرت محبوب الٰہی کو عجیب مرض لاحق تھا تمام طبیب تشخیص سے عاجز تھے اور ان کی حکمت حضرت نظام الدین اولیاء کی بیماری کے سلسلے میں بے فائدہ نظر آرہی تھی آپ دن میں کئی بار بے ہوش ہوتے اور پھر ہوش میں آجاتے اسی دوران حضرت شیخ بہائوالدین زکریا ملتانی کے پوتے حضرت شیخ رکن الدین عیادت کے لئے تشریف لائے حضرت محبوب الٰہی اپنی چارپائی پر تشریف فر ماتھے انہوں نے اپنی چارپائی پر بیٹھنے کے لئے کہا مگر پاس ادب کی وجہ سے حضرت شیخ چارپائی پر نہ بیٹھے آپ کے لئے کرسی لائی گئی آپ اس کرسی پر تشریف فر ما ہوئے ابھی ہمیں آپ کی بہت ضرورت ہے حضرت شیخ رکن الدین ابو الفتح نے درخواست کے انداز میں فرما یا اور مجھے یقین ہے کہ اگر آپ صحت کے بارے میں دعا فرمائیں گے تو حق اللہ اسے رد نہیں کریں گے ۔ حضرت شیخ رکن الدین کی محبت آمیز گفتگو سن کر حضرت محبوب الٰہی آبدیدہ ہو گئے اور نہایت پر سوز لہجے میں فر مانے لگے۔ شیخ ! میں نے اپنے آقا ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے سرور کونینؐ فر ما رہے تھے کہ نظام ! ہمیں تمہاری ملاقات کا بہت اشتیاق ہے، یہ بات سن کر حضرت رکن الدین ابو الفتح اور دوسرے حاضرین رونے لگے، جس شخص سے سرور کونین ﷺ ملاقات کے خواہاں ہوں وہ زندگی کو موت پر کیسے ترجیح دے سکتے ہیں۔ یہ تو حضرت نظام الدین اولیاء کا شرف خاص تھا کہ آقاؐ نے غلام کو یاد فرمایا اسی حکم کو سن کر محبوب الٰہی نے دنیا سے دل اٹھا لیا تھا طویل علالت کے بعد 18ربیع الثانی 725 ھ صبح صادق کے بعد اور طلوع آفتاب سے قبل 89سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے فارغ ہو کر اپنے اللہ سے واصل ہوئے۔ آپ کا عرس مبارک16 ربیع الثانی سے18 ربیع الثانی تک دہلی شریف کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ آپ کا مزار پاک بھی دہلی شریف میں عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔

جواب دیں

Back to top button