تازہ ترینخبریںسیاسیات

جنرل باجوہ اور عمران خان کی اسرائیل کے معاملے پر بحث ، تفصیلات آگئیں

پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں بحث جنم لینے لگتی ہے۔ ایک زمانے میں پرویز مشرف اسرائیل سے بات چیت کے کھل کر حامی رہے۔

اسکے بعد کسی بھی سیاسی لیڈر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ملک کے معروف صحافی حامد میر ایک عرصے سے یہ کہتے آرہے ہیں جنرل باجوہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالےسے دباو ڈالا تھا۔

تاہم اب انہوں نے عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان اس معاملے پر ہونے والی بحث کے مندرجات کے حوالے سے انکشافات کیئے ہیں۔

حالیہ کالم میں حامد میر لکھتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے میرے سمیت کچھ دیگر صحافیوں کےساتھ یہ گفتگو شروع کی کہ ہمیں اسرائیل اور بھارت کا اتحاد توڑنے کیلئے اسرائیل سے بات چیت شروع کرنی چاہئے۔ باجوہ صاحب چاہتے تھے کہ میڈیا اس بحث کا آغاز کرے لیکن میرا موقف تھا کہ یہ بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہئے ۔

بہرحال انہوں نے ہی عمران خان کے ساتھ میڈیا پرسنز کی ملاقات کا اہتمام کیا ۔اس ملاقات میں عمران خان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ملاقات ختم ہونے کے بعد مجھے ایک اہم ادارے کے ترجمان کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ ۔۔۔

حامد میر اس ایک ملاقات کا واقعہ سناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک صحافی دوست بہت دنوں کے بعد ملاقات کیلئے آئے ۔کافی دیر تک ملکی سیاست پر گفتگو کے بعد اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئے اور یاد دلایا کہ آپ کو چار سال پہلے وزیر اعظم ہائوس میں عمران خان کےساتھ ہونے والی وہ ملاقات یاد ہے جس میں آپکے ایک جملے نے سارا ماحول بدل دیا تھا؟

میں نے پوچھا کون سی ملاقات ؟دوست نے کہا کہ وہی ملاقات جس میں ہمارے کچھ ساتھی ٹی وی اینکر اور کالم نگار عمران خان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے مشورے دے رہے تھے۔ خان صاحب خاموشی سےیہ مشورے سنتے ہوئے بار بار آپ کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن اس دن آپ بھی خاموش تھے ۔پھر خان صاحب نے آپکی طرف دیکھ کر کہا کہ جی حامد آپ کیا کہیں گے ؟

آپ نے خان صاحب کے سر کے اوپر لٹکی ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ مسٹر پرائم منسٹر! یہ جس کی تصویر آپ کے اوپر لٹکی ہوئی ہے یہ بڑا لیڈر ہے یا آپ بڑے لیڈر ہیں؟

خان صاحب نے سر گھما کر اوپر دیکھا اور کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ہم سب کےلیڈر ہیں جسکے بعد آپ نے کہا کہ قائد اعظم کے پاکستان میں صرف قائد اعظم کی پالیسی چلے گی آپکی یا میری پالیسی نہیں چلے گی پھر خان صاحب نے یہ کہہ کر ساری بحث ختم کر دی کہ اسرائیل پر میرا وہی موقف ہے جو قائد اعظم کا موقف تھا میرا دل اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے نہیں مانتا، دوست نے خان صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد دلا کر پوچھا کہ اگر عمران خان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتے تو کیا انکی حکومت ختم ہوتی؟ میں نے اپنے دوست کو صاف صاف کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کے بعد سال تک عمران خان کی حکومت قائم رہی۔

یاد رہے کہ حامد میر کہتے ہیں کہ ملاقات ختم ہونے کے بعد مجھے ایک اہم ادارے کے ترجمان کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ساتھ ہونے والی گفتگو آف دی ریکارڈ تھی اور آپ وزیر اعظم کا کوئی جملہ رپورٹ نہیں کرینگے۔ عمران خان سے قبل نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ایسے مشورے دیئے گئے لیکن انہوں نے بھی ان مشوروں کو نظر انداز کیا اور ملک دشمن کہلوائے۔ جنرل پرویز مشرف وہ واحد پاکستانی حکمران تھے جو کھلم کھلا اسرائیلی قیادت سے رابطے میں رہے ۔

جواب دیں

Back to top button