
پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی دنوں سے اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور جمعرات کے روز کرنسی مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز پر ڈالر کی قیمت میں 85 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ایک ڈالر کی قیمت 283.50 روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں گذشتہ دو ہفتوں میں اب تک ساڑھے چھ روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
17 اکتوبر کو ایک ڈالر کی قیمت انٹر بینک میں 276.83 روپے کی سطح تک گر گئی تھی جو ستمبر کے شروع میں 307.10 کی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی۔ اس کے بعد سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایکسچینج کمپنیوں کے ضوابط میں ترمیم کے بعد ڈالر کی قیمت میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا۔
تاہم 17 اکتوبر کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں تسلسل کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ڈالر کی قیمت میں اضافہ اس وقت ہوا جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ مشن جمعرات کے روز پاکستان پہنچ رہا ہے اور پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کے تحت اگلی قسط کے لیے پروگرام کی شرائط کا جائزہ لے گا۔
مگر کیا ڈالر کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے؟ اس بارے میں ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا ہے اس کے بارے میں آن ریکارڈ کچھ نہیں ہے کہ کیا آئی ایم ایف کی کوئی ایسی شرط عائد کی ہے یا نہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں روپے کی قدر آئی ایم ایف کے کہنے پر کم کی گئی تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بارے میں کہا کہ اس کے ذمہ دار کچھ حد بینک ہیں جنھوں نے ایسا ماحول تیار کیا کہ جس میں امپورٹرز کو کہا گیا کہ اس وقت ڈالر کی کمی ہے کیونکہ برآمد کنندگان نے ڈالر بیچنا روکا ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بنیادی طور پر قیاس آرائیوں پر مبنی ٹریڈنگ ہے تاکہ اپنے مارجن کو بڑھایا جا سکے۔







