Column

موت بذریعہ مچھلی

سیدہ عنبرین
نگران حکومتیں ملک بھر میں کیا کر رہی ہیں موضوع کو ایک کالم میں سمیٹنا ناممکن ہے، اس کے لئے کئی کالم بھی کم ہیں البتہ کتاب ان کا احاطہ کر سکتی ہے لاہور میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ اس پر ایک نظر، عام انتخابات کا انعقاد اور اس کی نگرانی کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی آسان ترین کام ہے لیکن اسے مائونٹ ایورسٹ پر چڑھنے سے زیادہ مشکل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نگرانی کیلئے ایک ماہ کا وقت بھی بہت ہے لیکن زیادہ وقت حاصل ہو جائے تو نگرانی کے علاوہ کچھ کام ترجیح اول قرار پاتے ہیں۔ ترقیاتی کام اس سلسلے کی کڑی قرار دئیے جاسکتے ہیں ان کے ذریعے عوام کے مسائل کم حل ہوتے ہیں لیکن اس ترقی میں نگرانوں کی اپنی ترقی کا راز مضمر ہے۔ کہا جاسکتا ہے لاہور ترقیاتی کاموں کی زد میں ہے خطیر رقم یعنی کئی ارب روپے کے خرچ سے والٹن روڈ کینٹ کا ایک دیرینہ مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بڑا نالہ ہے جو جانے کہاں سے چلتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے۔ لیکن اب یہ نالہ مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہا تھا۔ اس میں گر کر بچوں کی اموات بھی ہوئیں، برسات میں اوور فلو ہو کر پورے والٹن روڈ کو جوہڑ میں بدلنے والے نالے کو ختم کر کے اب زمین دوز پائپ بچھائے جارہے ہیں یہ پائپ قد آدم سائز کے ہیں، قطر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی کم ہے اس کی بجائے سیدھی سادھی زیادہ گہری اور چوڑی پختہ ڈرین بنا دی جاتی تو دیرپا ہوتی۔ زیر زمین پائپ لائن بچھانے سے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا اور مکدر فضا قدرے بہتر ہوگی۔ لیکن ڈرین جیسا کم خرچ منصوبہ قابل عمل نہیں سمجھا گیا۔ اس نالے وہی حشر ہوگا جو اس سے قبل مختلف نالوں کا ہوا ہے۔ یعنی اس پراجیکٹ کی تکمیل کے فوراً بعد اس نالے کا سانس بند کر نے کے پراجیکٹ پر عوام کی طرف سے عمل شروع ہو جائے گا۔ نالہ یوں تو بند نظر آئیگا لیکن جس راستے اس میں پانی آئے گا اسی راستے سے اس میں مختلف رنگ و نسل کے شاپر بھی آئیں گے۔ پھینکنے والے راستہ ڈھونڈ لیں گے یا بنا لیں گے کہ سڑک کے دونوں طرف بنے ہوٹلوں، رکاوٹوں اور ورکشاپوں کا کچرا کہیں دور بنائی گءی جگہوں پر پھینکنے کی بجائے اس زمین دوز نالے میں کیسا پھینکا جائے۔ یوں قومی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانچ برس بعد ہی رونا پھر شروع ہو گا کہ اب نئے عذاب سے کیسے نجات حاصل کی جائے، سیوریج لائن کی صفائی مشکل اور مہنگا کام ہے جبکہ پختہ ڈرین کی صفائی سہل انداز میں کم خرچ پر ہو سکتی ہے۔ جس طرح نہروں کے خشک ہونے کے موسم میں بھل صفائی کرائی جاتی ہے پس پہلے قدم کے طور پر ضروری ہے شاہر پر پابندی لگائی جائے خواہ وہ کسی بھی گریڈ کا ہو۔ ممنوعہ گریڈ کا شاہر مارکیٹ میں استعمال ہو رہا ہے یہ جلتا ہے نہ گھلتا ہے پس بہتے پانی رواں نالوں کا سانس بند کر دیتا ہے شاپر کو ممنوعہ قرار دینے کے بعد اس کے لئے قانون بنا دیں کہ جس کے قبضے سے برآمد ہو گا اس کے لئے وہی سزا ہو گی جو کسی کے قبضے سے ہیروئن برآمد ہونے پر ہوتی ہے اس معاملے کو ناقابل ضمانت جرائم کی فہرست میں ڈالا جائے ورنہ قومی بجٹ اور توانائی و عمر نالے بناتے اور صاف کرتے گزر جائیگی۔ حقیقی ترقی کی طرف دھیان نہ جائیگا۔ محکمہ صحت اور تعلیم سے متعلق کئی منصوبے اپ گریڈ کئے جا رہے ہیں اس پر بھی کئی ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں توقع تو نہیں ہے کہ اس سے علاقہ مکینوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر ہونگی۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ملاوٹ کلچر کا خاتمہ کیا جائے آج ملک بھر میں کوئی چیز خالص دستیاب نہیں ہے اشیاء خورونوش میں ملاوٹ نے ہر شخص کو مریض بنا دیا ہے۔ ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ اسی صورت کم ہو سکتا ہے جب مریض کم ہونگے آپ ایک ہزار نئے ہسپتال تعمیر کر ڈالیں یہ بھی ایک روز کم پڑ جائینگے ملاوٹ روکنے کیلئے اس جرم کی سزا موت مقرر کر دیں۔ خوراک خالص ہوگی تو مریض ختم ہو جائینگے۔ مریض کم ہونگے تو موجود ہسپتال آئندہ بیس برس کیلئے کافی ہونگے بلکہ نصف سے زیادہ تو ویران نظر آئینگے ۔ قوم کو ڈاکٹر اور سرجن کی شکل میں قصائیوں سے نجات حاصل ہو گی۔ ادویات کی درآمد پر اٹھنے والے کئی سو ارب دینے کے اخراجات سے نجات ملے گی۔ اور یہی زرمبادلہ ہماری زراعت یا دیگر ضروری شعبوں میں خرچ ہوسکے گا اس سے نئے ڈیم بنانے میں مدد مل سکتی ہے کالج یونیورسٹیاں بن سکتی ہیں۔ ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے رویے میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ بھی سامنے آنا چاہیے انہیں ہدایت کی جائے کہ مریضوں کو مہنگی ترین دوا کی بجائے سستی ترین دوا لکھ کر دیں۔ سعودی عرب میں گزشتہ برس تین سو ایسے پاکستانیوں کو برطرف کر کے ملک واپس بھیجا گیا جو ادویہ شاز کمپنیوں کی ملی بھگت سے انکی تیار کردہ مہنگی ادویات مریض کو لکھ دیتے تھے ۔ پاکستان میں مریضوں سے ڈاکٹروں کے سلوک کے حوالے سے ایک ویڈیو کلپ توجہ کا طالب ہے۔ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مریض وارڈ میں بستر پر لیٹا ہے اسے سانس خوراک اور جانے کون کون سے نالیاں لگی ہیں جبکہ ڈاکٹر اس کے منہ پر تمانچے مار کر اسے اپنی بات سمجھا رہا ہے، سنیئر اور تجربہ کار ڈاکٹر یقیناً ایسا نہیں کرتے یہ کوئی جونیئر ڈاکٹر یا ہائوس جاب کرنے والا نوجوان ہے جسے سخت سزا دی جانے چاہیے۔
میری تحقیق کے مطابق اگر ایکسیزنل معاملہ خوراک پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ تین برسوں میں پورا پنجاب اور خصوصاً لاہور پیٹ کے السر جیسے موذی مرض میں گرفتار ہو جائے گا۔ ملاوٹ شدہ کیمیکل والے دودھ کے بعد اب مچھلی پر ایک نظر، موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی مچھلی خوراک کا جز بن جاتی ہے جہاں جہاں بار بی کیو ہوتا ہے وہاں مچھلی تلنے کی بڑی بڑی کڑاہیاں نظر آتی ہیں دکان اونچی ہو پکوان پھیکا ہو لاہوریوں کو اس سے غرض نہیں سب اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جس سے اس کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے مگر اب نہیں۔
مصالحے کی پیسٹ بنانے والی تمام اشیاء یعنی لہسن ،ادرک ،بیسن سستا نہیں مہنگا ہے لہذا دکاندار مافیا بلکہ مچھلی مافیا نے سب چیزیں ترک کر کے تھوڑے سے دہی میں سرخ مرچ کا لیپ کر کے اسے مصالحوں کا متبادل بنا کر اس کا استعمال شروع کر دیا۔ مچھلی فرائی کرتے ہوئے سرخ مرچ کچی رہ جاتی ہے یوں یہ کچی مرچ معدے کو وہ نقصان پہنچاتی ہے جو براہ راست تیزاب پی لینے سے زیادہ ہوتا ہے۔ فوڈ اتھارٹی نے دودھ کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے انہیں اب مچھلی مافیا پر ہاتھ ڈالنا چاہنے جو گندے اور غلیظ تیل میں مچھلی فرائی کرتے ہیں۔ ہفتوں یہ تیل استعمال ہوتا رہا ہے۔ ستم بالائے ستم، چار سو روپے فی کلو میں دستیاب مچھلی بارہ سو روپے سے لے کر بائیس سو روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے پرائس کنٹرول نام کا ایک ادارہ شاید کاغذوں میں کہیں ہو۔ میدان عمل میں نظر نہیں آتا۔ بات بات پر سوموٹو لینے والے ایک سوموٹو عوام کی سہولت کیلئے بھی لے لیں تو ان کا احسان ہوگا۔ اشیائے ضروریہ کے معاملے میں منافع کی کوئی ایک حد مقرر کر دیں اس ایک فیصلے سے عوام کی زندگیوں میں قرار آجائے گا۔ آج ملک کے ہر گوشے میں ہر چیز بہت مہنگی ہے صرف موت سستی ہے۔ ایک مچھلی نے نبی اللہ حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا پھر خدا کے حکم سے انہیں اگل دیا۔ ہماری بازاری مچھلی ہمیں موت کے منہ میں لے جارہی ہے جہاں جہاں سے واپسی نہ ہوگی بلکہ اذیت ناک موت مقدر بن جائیگی۔

جواب دیں

Back to top button