گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

ضیا ء الحق سرحدی
گزشتہ روز وفاقی کابینہ اور ای سی سی نے گیس کی قیمتوں میں 172فیصد سے زائد اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ نئی قیمتوں کا اطلاق کل یکم نومبر سے ہوگیا۔ پٹرولیم ڈویژن نے اعلامیہ جاری کر دیا ماہانہ 25سے 90مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے قیمت نہیں بڑھائی گئی۔ پروٹیکٹڈ صارفین کیلئے فکسڈ چارجز 10سے بڑھا کر 400روپے کر دئیے گئے جو میٹر کا کرایہ ہوگا۔ نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمت میں 172فیصد سے زائد اضافہ کیا گیا ہے۔ تنوروں کیلئے گیس کی قیمت 600روپے فی ایم ایم پی ٹی یو برقرار رکھی گئی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق پروٹیکٹڈ صارفین کا ماہانہ بل 900روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔ 57فیصد صارفین کیلئے گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا صرف 400روپے کا ماہانہ فکسڈ بل متعارف کرایا گیا۔ اعلامیہ کے مطابق ماہانہ 25مکعب میٹر پر قیمت 200سے بڑھا کر 300روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، 60پر قیمت 300سے بڑھا کر 600، ماہانہ 100پر قیمت 400سے بڑھا کر 1000، ماہانہ 150مکعب میٹر پر قیمت 600سے بڑھا کر 1200 روپے، 200پر قیمت 800سے بڑھا کر 1600روپے، 300پر قیمت 1100سے بڑھا کر 3000اور 400پر قیمت 2000سے بڑھا کر 3500، جبکہ 4000مکعب میٹر سے زائد استعمال پر قیمت 3100سے بڑھا کر 4000روپے کر دی گئی ہے۔ برآمدی صنعتوں کیلئے قیمت کی قیمت 2100روپے غیر برآمدی صنعتوں کیلئے 2200، سیمنٹ سیکٹر کیلئے قیمت 4400سی این جی کیلئے گیس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 3600روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ پاور پلانٹس کیلئے گیس کے نرخ 1050روپے برقرار رکھے گئے ہیں۔ وزارت توانائی کے مطابق درآمدی گیس شامل کرنے سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے روپے کی قدر کم ہونے سے گیس کی تلاش، پیداوار اور تقسیم پر اخراجات بڑھ گئے ہیں قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے تو گردشی قرضہ 2.1ٹریلین تک پہنچ جاتا بہت زیادہ منافع کمانے والے کاروبار کم قیمت پر قدرتی گیس استعمال کر رہے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہونے کی وجہ سے تمام سبسڈیز واپس لے لی ہیں۔ اس سے پہلے خبر چلائی گئی تھی کہ وفاقی کابینہ نے اضافہ موخر کر دیا ہے اور فیصلہ واپس ای سی سی بھجوا دیا مگر ای سی سی نے شام چار بجے فوری اجلاس بلا کر اضافہ پھر کر دیا جس کی کابینہ نے بھی منظوری دیدی۔ اجلاس میں یہ بھی ہدایت کی گئی کہ کھاد کی صنعت کے لیے گیس کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ صوبوں سے کہا جائے گا کہ وہ در آمدی لاگت کو برداشت کرنے کے لیے مزید فعال طریقے سے کام کریں۔ اجلاس میں وزیر تجارت، صنعت و پیداوار گوہر اعجاز ، وزیر برائے مواصلات، ریلویز ، اور بحری امور شاہد اشرف تارڑ، وزیر منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات سمیع سعید، وزیر مملکت پاور اینڈ پیٹرولیم محمد علی نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئی ٹی اور ٹیلی کام کے وزیر ڈاکٹر عمر سیف، وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن محمد جہانزیب خان، چیئر مین ایس ای سی پی، وفاقی سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ سرکاری افسران بھی شریک ہوئے۔ ایک جانب معاشی صورتحال میں بہتری کی خبریں ہیں ، ڈالر روزانہ کی بنیاد پر نیچے آرہا ہے ، پیٹرول سستا ہوا ہے اور مزید سستا ہونے کا امکان موجود ہے، لیکن دوسری جانب مہنگائی کا جن بوتل میں بند کئے جانے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، پٹرول سستا ہونے کے بعد گیس اس لئے مہنگی کی گئی ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا حکم ہے۔ آئی ایم ایف کے اب تک کے تمام احکامات بدترین غلامی سے کم نہیں ہیں۔ محض ایک ارب ڈالر کے پیچھے ہم اپنی آزادی ، خود مختاری تک گروی رکھ چکے ہیں ۔ یہ سابق حکومت کا کیا دھرا ہے جو نگرانوں کے ذریعہ سے قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اور مارچ تک رستگاری کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا، بلکہ آزادی اور اصلاح احوال کی کوئی خواہش تک کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ نگران حکومت جہاں اور بہت سے کام اپنے مینڈیٹ سے ماورا کر رہی ہے وہیں اگر وہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی خاطر ایک منصوبہ بھی لانچ کر دے ، اور آئی ایم ایف کے مطلوبہ معاشی اہداف کا کوئی متبادل بند وبست کر دے تو اس سے عوام کو ریلیف ملے گا اور ملک میں معاشی سرگرمیاں بہتر ہوسکیں گی۔ اس سلسلہ میں کوئی زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں حکومت کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ اقوام متحدہ کی 2022کی رپورٹ میں بیان کردہ اشرافیہ کی عیاشیوں پر قدغن لگائے اور سالانہ 17ارب ڈالر میں سے جتنا ممکن ہو سکے بچانے کی کوشش کرے۔ دوسری جانب سولر کو گھریلو صارفین اور سرکاری عمارتوں کے لئے نہ صرف لازمی قرار دے بلکہ سکت نہ رکھنے والے صارفین کو رعائتی قرضے دیئے جائیں اور ان کی وصولی بجلی کے بلوں کی صورت وصول کر لی جائے۔ ان اقدامات سے ایک جانب قومی خزانے میں رقم آئے گی تو دوسری جانب بجلی کی کے کم خرچ کی وجہ سے پیداوار میں استعمال ہونے والے پیٹرول کی کھپت میں کمی آئے گی اور ملک کا درآمدی بل کم ہو گا، بجٹ خسارہ کنٹرول میں آئے گا تو آئی ایم ایف گیس، بجلی مہنگی کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کرے گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ حل ایک عام آدمی بھی جانتا ہے، لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے ان کی ترجیحات مختلف ہیں، عام آدمی ماضی کے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل تھا نہ ان کی ترجیحات میں ہے، لیکن عام آدمی مر رہا ہے ، اس کی زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ پیٹرول سستا ہونے سے جو امید پیدا ہوئی تھی ، گیس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافے سے وہ دم توڑ گئی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ گیس دستیاب ہی نہیں ، لیکن اس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ شہری متبادل ذرائع سے بھی اپنی ضروریات پوری کرنے پر اخراجات کرتا ہی اور حکومت کو اس ایندھن کے بھی پیسے دینے پر مجبور ہے جو وہ استعمال ہی نہیں کر رہا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کا زیادہ امتحان نہ لے، گیس مہنگی کر کے مہنگائی کا نیا طوفان کھڑا کرنے کے بجائے ضروری ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کو یقینی بنایا جائے، تا کہ ایک جانب سے اگر اس کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سے کچھ تو سہولت مل سکے ۔





