Column

غزہ بچوں کا مقتل، قابض کو حق دفاع نہیں ہوتا

محمد ناصر شریف

ہم نے ٹھان رکھی ہے کہ چاہے کہیں سے شعلے اٹھ رہے ہوں، گولہ باری جاری ہو یا ماتم کی آواز آ رہی ہو ہم نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر لینا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھ کر خود کو شور شرابا سے دور رکھنا ہے یا اگر کچھ کرنا ہے تو مارچ، ریلیاں، مظاہرے، جلسے، جلوس جس کے بعد ہر مقرر اپنے ساتھیوں سے پوچھتا پھرے کہ میں نے کیسا خطاب کیا اور داد ستائش پاکر اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔ ہمارے پاس کبھی بھی کسی مسئلہ سے نکلنے کا کوئی نسخہ یاتدبیر نہیں ہوتی۔ شکایات سے شروع اور مطالبات پر ختم، حل کچھ نہیں، قابضین پر دبائو ڈال کر پسپائی کس طرح کرانی ہے کی حکمت عملی سے عاری،بہت اچھے مقرر لیکن بے عمل،خود اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ مظلوموں کے لیے توانا آواز بننے کے بجائے اپنے لیے پناہ گاہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔غزہ سے دل دہلا دینی والی تصاویر اور واقعات مزید تیزی سے سامنے آرہے ہیں، سیکڑوں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، امدادی کارکن اور شہری شدید بمباری کے بعد ملبہ سے زخمیوں اور میتوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔ جو اسرائیلی بمباری سے بچ گئے ہیں وہ والدین،بچوں سمیت اپنا سب کچھ قربان کر چکی ہیں۔ پانی میسر ہے نہ خوراک، چالیس فیصد سے زائد غزہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا کو بمباری کی تباہ کاریوں اور مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بے خبر رکھنے کے لیے انٹرنیٹ سمیت دیگر کمیونیکشن کے ذرائع بھی  تباہ کر دئیے گئے ہیں۔7اکتوبر سے اب تک غزہ میں 3ہزار 195بچے شہید ہو چکے ہیں جبکہ ایک ہزار لاپتہ بچوں کے ملبے میں دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیاجارہاہے۔اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو معصوم بچوں کا مقتل بنادیا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق غزہ میں شہید بچوں کی تعداد 4 سال کے دوران دنیا کے جنگ زدہ علاقوں میں مرنے والے بچوں سے زیادہ ہے۔غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملے جاری ہے، شہداء کی تعداد 8ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔اسرائیلی فوج کے تیز ہوتے حملوں اور بڑھتی ہلاکتوں کے درمیان غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے۔ اسرائیلی فورسز اور حماس کے جنگجوئوں کے درمیان غزہ کی سرحد پر گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ حماس کے عسکری ونگ کے مطابق اسرائیلی افواج کو زمینی حملے کے دوران مختلف محاذوں پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے ایک بار پھر فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر گھنٹے بعد غزہ کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی میں وقفے کے بجائے حملیمزید تیز کردیئے ہیں جو افسوسناک ہیں۔ اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات فرانسسا البانیز کے مطابق اسرائیل کو غزہ میں حق دفاع حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں قابض قوت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ اپنے دفاع کا حق جسے اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51کے تحت استعمال کیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ یہ ایک ریاست کو کسی دوسری ریاست سے ہونے والے حملے کو پسپا کرنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا حملے کو پسپا کرنے کے لیے ضروری کارروائی اس کی شدت اور وسعت پر مبنی ہونی چاہیے اور یہ متناسب ہونا چاہیے‘‘۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کا اصول قانون کہتا ہے کہ فوجی قبضے کے تناظر میں اپنے دفاع کا اطلاق نہیں ہوسکتا، جبکہ اس معاملے میں اسرائیل کسی دوسری ریاست، دوسرے لوگوں پر قابض ہے۔24سے 30گھنٹوں میں اسرائیل نے اپنے علاقے پر دوبارہ کنٹرول کرلیا تھا۔ لہذا اس وقت تک اپنے ہی علاقے میں اپنے دفاع کا حق، اگر اپنے دفاع کا اطلاق کرنا ہے تو ختم ہو چکا تھا۔ فرانسسا البانیز نے کہا کہ یہ حقیقت کہ اسرائیل بغیر کسی فوجی ہدف کے پوری غزہ کی پٹی پر بمباری کر رہا ہے، اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایک واضح فوجی مقصد حماس کی فوجی صلاحیت کو ختم کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف یہی قول و فعل میں نظر نہیں آ رہا۔ اس کا مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ لیکن حماس ایک سیاسی جماعت بھی ہے تو عملی طور پر اس کا کیا مطلب ہے؟ البانیز کا کہنا تھا کہ اسرائیلی سیاست دانوں اور رہنمائوں نے اپنے بیانات میں اعلان کیا کہ غزہ میں رہنے والے تمام فلسطینی حماس کے اقدامات کے ذمہ دار ہیں، تو ان کی کمر توڑ دینی چاہیے۔ یہ زبان انتہائی خطرناک ہے۔ نسل کشی کی زبان استعمال کی گئی ہے اور سیکڑوں سکالرز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اسرائیل کی فوجی مہم نہایت تباہ کن اور بلاامتیاز رہی ہے اور اس نے غزہ کا 42فیصد رہائشی علاقہ تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے شہری علاقوں میں اسپتال، عبادت گاہیں اور مارکیٹیں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ( آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا کنونشنز کے ذریعے فراہم کردہ امدادی سامان میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی دائرہ اختیار میں جرم فرض سمجھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے ضروریات سے بھرے ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جو غزہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سامان بلاتاخیر غزہ کے شہریوں تک پہنچنا چاہیے۔ رفح وہ واحد راہداری ہے جس کے ذریعے بین الاقوامی امداد حماس کے زیرانتظام غزہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ کریم خان کے مطابق وہ 1967سے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں فلسطینی شہریوں کے خلاف آبادکاروں کے حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی فکر مند ہیں۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا اسرائیل کے غزہ پر مسلسل حملوں سے متعلق کہنا ہے کہ صیہونی حکومت ریڈلائن پار کر چکی ہے جو کسی کو بھی ایکشن لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ واشنگٹن ہم سے کچھ نہ کرنیکا کہتا ہے لیکن وہ خود اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر گھنٹے بعد صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے ، اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ، شہداء کی تعداد 8ہزار سے زائد ہوگئی، شہداء میں 4ہزار کے قریب بچے شامل، غزہ میں انٹرنیٹ بحال، مظالم کی داستانیں سامنے آنے لگیں، بمباری سے ایک اور مسجد شہید ، القدس اسپتال کے احاطے میں بمباری، اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی حملے شروع کر دئیے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں 5فلسطینی نوجوان شہید کر دئیے گئے ہیں۔ فیروز ناطق خسرو نے لکھا تھا
یہ رات ہوگی طویل کتنی
بلند ہوگی فصیل کتنی
یہ خوف و دہشت کا دور دورہ
رہے گا کب تک
گلی گلی کوچہ کوچہ پہرہ
رہے گا کب تک
یہ آگ جنگل کی آگ کب تک
فلک سے برسے گی راکھ کب تک
ستارے ٹوٹیں گے اور کب تک
یوں آسماں سے
پرند روٹھیں گے آشیاں سے
یہ پھول پتے ہوائیں شبنم
کریں گے کس کس کا اور ماتم
سیاہ پر ہول آندھیوں کا یہ موج میلہ
رہے گا کب تک
مقابلے میں شجر اکیلا
کڑکتی بے چین بجلیوں کا
زمیں کی جانب سفر کبھی تو تمام ہوگا
پھریں گے دھرتی کے دن یقیناً
کبھی تو بندوں پہ لطف رب انام ہوگا

جواب دیں

Back to top button