ہم سچے ہیں

تحریر :حسیب بٹر اڈووک
میرا قلم ابھی کچھ اور لکھنے کا روادار نہیں ہے، ملک میں اس وقت نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کی باتیں چل رہی ہیں، انہیں ہر طرف سے ریلیف بھی مل رہا ہے، لیکن مجھے فلسطین میں ہرروز مارے جانے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں کا درد تڑپا رہا ہے، ملک میں بحث چل رہی ہے کہ نواز شریف کو الیکشن سے قبل ہی سرکاری پروٹوکول دیا گیا ہے، لیکن مجھے فلسطین کیلئے لکھنا ہے، میں تو کہتا ہوں جب نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے تواب اس ہیجانی کیفیت سے عوام کو چھٹکارا دیجئے اور الیکشن پر قوم کا اربوں روپیہ ضائع ہونے سے بچائیے اور نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کا اعلان کرتے ہوئے اسے اس اہم ترین منصب پر فائز کیجئے، اس سے کیا غرض کہ نواز شریف پاکستان سے لندن کیسے گیا، کیوں گیا، یہ سب چھوڑ کر یہ سوچئے کہ وہ واپس کیوں آیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اقتدار کی ہوس اسے واپس لے آئی ہے، پھر بھی میری دعا ہے کہ وہ پاکستان کیلئے حقیقت میں کچھ کرے اور اسے پورا موقع دیا جائے جیسے پہلے دیا گیا تھا، بیچ میں ہی کوئی فتنہ کھڑا نہ کر دیا جائے کیونکہ جب ایک وزیراعظم اپنا وقت مکمل نہیں کرتا تو نہ اس کی پالیسیاں مکمل ہو پاتی ہیں اور ملک و قوم کا معاشی، سیاسی، سماجی نقصان الگ سے ہوتا ہے، یہ سب معاملات کسی بھی ملک کو ترقی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتے اور ویسے بھی ہم دنیا کے بے حد مقروض ہیں، ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا؟۔ اس وقت دنیا فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر سراپا احتجاج ہے لیکن اسرائیلی بھیڑئیے کسی بھی احتجاج کو خاطر میں لائے بغیر روزانہ کی بنیادوں پر معصوم فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ معصوم اور کم سن بچے شہید کئے جارہے ہیں۔ خواتین اسرائیلی بموں سے ملبوں کے نیچے دبی سسک سسک کر جان دے رہی ہیں۔ نوجوانوں کے سینے چھلنی کئے جارہے ہیں، ضعیف العمر افراد جنہیں سہاروں کی ضرورت ہے، انہیں بے سہارا کر دیا گیا ہے۔ انسانیت کا کھلا دشمن اسرائیل فلسطینیوں کو روندتا چلا گیا ہے، لیکن دنیا کی کوئی طاقت اس وقت اسرائیلی بدمست ہاتھی کو زنجیروں میں جکڑ نہیں پا رہی کیونکہ دنیا کی زیادہ طاقتیں تو ہیں ہی اسرائیل کی معاون و مددگار اور اسکی حمایتی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس سے جو بھی اسرائیل گیا اس نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کیا نہ صرف اعلان بلکہ امریکہ تو اپنا بحری بیڑا اور جدید اسلحہ اسرائیل منتقل کر چکا ہے اور عالم اسلام میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ بڑھ کر اسرائیل کو روک لے۔ عالم اسلام بس اس وقت مذمتوں پر انحصار کئے ہوئے ہے، اگر عالم اسلام نے شاہانہ طرز حیات سے نکل کر اپنے دفاع کو مضبوط کیا ہوتا، جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا ہوتا، جیسے اسرائیل، امریکہ اور یورپ نے رکھا تو آج کیا جرات تھی کہ اسرائیل فلسطینیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ آج یہود و ہنود جدید ٹیکنالوجی میں ترقی کرکے معصوم مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے اور ستم تو یہ ہے کہ دنیا کا کافر کسی بھی قانون اور ضابطے سے ماوراء مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے، کشمیر ہے کہ فلسطین، اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو ختم ہی کر دینا چاہتی ہیں۔1991ء میں ایک فلسطینی پناہ گزین خاندان جو سعودی عرب میں مقیم ہوا، کے ہاں ایک بیٹی ہوئی، جس نے اپنی علمی ادبی خدمات سے خود کو منوایا
نامور شاعرہ ادیبہ حبا کمال ابو ندا۔ جس نے ابھی زندگی کے 31سال ہی دیکھے تھے، 31بہاریں اس لئے نہیں کہا کہ فلسطینیوں کی زندگیوں میں کبھی بہار کا موسم نہیں آیا مذکورہ ادیبہ اپنی ادبی کاوشوں پر ادب کی دنیا میں اپنی اہم جگہ بنا لی، اس ادبی شخصیت کو فلسطین میں اسرائیلی میزائلوں سے شہید کر دیا گیا، اس شہید شاعرہ کا خاندان 1948 ء کی عرب اسرائیل جنگ میں زبردستی جبری طور پر بے گھر اور بے وطن کر دیا گیا تھا۔ اس ادیبہ نے اپنی شہادت سے قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کرتے کہا تھا کہ اگر وہ شہید ہوگئی تو سمجھ لینا کہ ہم ابھی ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں۔۔۔ اس شاعرہ ادیبہ نے ایک ناول آکسیجن فار ناٹ دا ڈید ۔۔ لکھا تھا، اس کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ فلسطینیوں میں دم خم ہے اور اسرائیلیوں کی جارحیت کے باوجود وہ جھکے نہیں، ڈرے نہیں اور ظلم کے سامنے سینہ سپر ہیں، وہ خوف سے بھاگ نہیں رہے، وہ اسرائیلیوں کے ٹینکوں کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ بھی تنہا کیونکہ عالم اسلام نے ہنوز زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں کیا۔ اسرائیل سمندر فضا زمینی راستوں سے فلسطین پر حملہ اور ہے اور گولہ و بارود کی بارش کئے ہوئے ہے لیکن فلسطینیوں کے عزم اور حوصلوں کو سلام ہے، ان کی جرات کو سلیوٹ ہے، کہ اپنے بچوں کے لاشے اٹھا کر بھی ان کی کمر خمیدہ نہیں ہوئی بلکہ وہ اور بھی جذبے سے اسرائیلی مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ خدا کی اس زمین پر یہ ظلم زیادہ دیر رہنے والا نہیں کیونکہ اسرائیلی مظالم کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہ بھی اٹھائے تو بھی قدرت کا قانون تو حرکت میں آئے گا لیکن یہ یاد رہے کہ آج اگر کسی نے اسرائیل کے آگے کھڑے ہونے کی جرات نہ کی تو کل اس کی باری بھی ہے۔





