Column

انار ایک نہیں، انارکی ہے بہت

تحریر : سیدہ عنبرین
کسی کو لیڈر ماننا یا نہ ماننا، من چلے کا سودا ہوتا ہے کچھ لوگ جناب مراد سعید کو بہت بڑا لیڈر مانتے ہیں کیونکہ وہ کل شام تک ڈٹا ہوا تھا، اب کل شام ہتھیار ڈال دے تو بھی اپنے چاہنے والوں کی نظر میں فاتح قرار پائے گا کیونکہ کوئی مرض نہ ہونے کے باوجود وہ علاج کیلئے ضمانت لے کر ملک سے فرار نہیں ہوا۔ اسی طرح کچھ لوگ جناب نواز شریف کو لیڈر نہیں مانتے اور اپنے نہ ماننے کے حق میں سوا سو دلیلیں دیتے ہیں، کچھ لوگ گائوں میں ختنہ کرنے والے نائی کو سرجن مانتے ہیں جبکہ اعلیٰ میڈیکل کالج سے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ڈاکٹر یا سرجن سے علاج کرانے کیلئے تیار نہیں ہوتے، وہ اپنے پیر صاحب کو صاحب کرامات سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ حصول اولاد کیلئے بھی ان ہی سے رجوع کر کے ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ بعض پیر صاحبان اولاد دینے کیلئے کیا کیا کرتے ہیں یہ کہانی پھر سہی۔ ن لیگ کے اندر کیپٹن صفدر کو کوئی لیڈر ماننے کیلئے تیار نہیں حالانکہ وہ آج سے کئی برس پہلے نہایت طاقتور لیڈر تھا یوں ہی اسے بہت بڑے لیڈر کی دختر نے ایک مرتبہ نہیں تین مرتبہ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے، کہا، اب اس کی مقبولیت میں کچھ کمی آئی ہے تو اس کا مطالبہ یہ نہیں کہ وہ کبھی لیڈر تھا ہی نہیں۔ کیپٹن صفدر کے خلاف کئی مقدمات درج تھے ، جن میں ایک مقدمہ بغاوت کا بھی تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے اس بغاوت کیس کی سماعت کی، اب فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، وہ یقیناً اس مقدمے میں بری ہو جائیں گے، انہیں دیگر مقدمات میں بھی بری ہی ہونا ہے، کوئی انہیں سزا نہیں دے سکتا۔ جناب نواز شریف کو اپنے مقدمات میں اپیل کا حق مل چکا ہے، ان اپیلوں کی سماعت اس انداز میں نہیں ہو گی جیسے عام آدمی کے مقدمات کی ہوتی ہے، یہاں آپ کو صرف سستا اور فوری انصاف ملتا نظر نہیں آئے گا بلکہ انصاف کی رفتار آواز سے تیز رفتار ہو گی، اسے سپر سانگ سپیڈ سے ملتا انصاف کہا جا سکے گا، یوں سپیڈ کی تاریخ میں ایک اور اضافہ ہونے جا رہا ہے، پہلے شہباز سپیڈ اب نواز سپیڈ، تیز سپیڈ میں ملک کا کیا حشر ہوا دنیا کے سامنے ہے، پاکستان کا مستقبل کیا ہے، وہ بھی واضح ہے، مزید مہنگائی، مزید قرضے، مزید وعدے، مزید سبز باغ، جو زیادہ سے زیادہ سال بھر اپنی سرسبزی برقرار رکھ پائیں گے، پھر وہ کالا باغ بن جائیں گے۔ اپیلوں کا فیصلہ بھی جناب نواز شریف کے حق میں آئے گا۔ وہ تمام نامور وکلاء جو انہیں اس سے قبل انہیں سزائوں سے نہ بچا سکے تھے، اب ان کی ضرورت نہ ہو گی، اب تو وکیل کا منشی بھی پیش ہو جائے تو سزائیں ختم، ملزم باعزت بری ہوتے نظر آئیں گے۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کا آغاز ہو چکا ہے، اس انتخابی مہم میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ قوم کو انتخابی نتائج کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ پہلے جلسے کا عرق نکالئے تو کچھ یوں ہے کہ زیادہ سے زیادہ بتائی گئی تعداد ایک لاکھ افراد کے پہنچنے کی اطلاع کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حمزہ شہباز اپنے حلقے سے سوا لاکھ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں، لاہور کی درجن بھر قومی اسمبلی کی سیٹوں سے زیادہ ہیں، اسی طرح صوبائی اسمبلی کی سیٹوں اور ان کے ووٹر کی تعداد تو بہت زیادہ ہے، پھر صرف ایک لاکھ افراد کا اپنی پارٹی سربراہ کے استقبال کیلئے آنے کا مطلب ہے لاہور ان کے استقبال کیلئے گھر سے نہیں نکلا۔ کراچی اور کوئٹہ سے ٹرین کی سواریاں بھی لاہور کے ریلوے سٹیشن پر اترتے ہی انار کلی کی سیر کو نکل گئیں یا انہوں نے تاریخی مقامات کی سیر کرنا بہتر جانا۔ ان ٹرینوں کے مسافروں کے پیکیج میں قیام و طعام تو تھا ہی، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا، کوئٹہ اور کراچی والوں کیلئے پارٹی کے خرچ پر تفریح خوب رہی، مسافر اچھی یادیں لے کر لاہور سے واپس ہوئے، اس بہانے اپنے عزیز و اقارب سے بھی مل لئے۔انتخابی مہم سنگینوں کے سائے تلے یعنی حفاظتی حصار میں چلتی رہی تو ناکام ہو جائے گی، اگر عوام میں گھل مل جانے کے فاصلے کے تحت ہوئی تو لیڈروں کا استقبال مختلف انداز میں ہو گا، عوام بپھرے بیٹھے ہیں، وہ لیڈر جو اپنے چھوٹے قد کو چھپانے کیلئے اونچی ایڑی والے جوتے پہنتے ہیں، ان کا استقبال ایڑی والے پھولوں سے ہو سکتا ہے، جبکہ پلیٹ فارم ایڑی والا جوتا پہننے والوں کا استقبال پلیٹ فارم ایڑی والے پھولوں سے ہونے کا امکان ہے۔ عوام کو اس قسم کے استقبال کیلئے مجبور کرنے کا سہرا جناب شہباز شریف کے سر ہو گا، اس میں برابر کے حصہ دار جناب اسحاق ڈار بھی ہوں گے، جن سے ڈالر قابو آیا نہ دہشت گرد، وہ چینی اور آٹے کی سمگلنگ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس سے بڑھتی ہوئی بے چینی ختم نہ کر سکے، ان کی مکمل توجہ اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات ختم کرانے میں رہی، وہ اس میں صد فی صد کامیاب رہے، جو کسر رہ گئی ہے وہ بذریعہ عیبی امداد پوری ہو جائے گی۔ لیگی رہنما خلیجی ریاستوں اور چین کا دورہ انتخابات سے قبل کرنا چاہتے تھے کہ اپنے ووٹرز کو یقین دلا سکیں کہ چین اور عرب ریاستیں ان کی پشت پر کھڑی ہیں اور ان کے انتخاب جیتتے ہی ڈالر برسات برسا دیں گی لیکن اب تو بچہ بچہ جان چکا کہ یہ قرض سیاسی شخصیات لیں گی اتارنے ہم نے ہیں، اس کیلئے بھاری ٹیکس لگائے جائیں گے، جن سے ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، سکھ کا سانس تو اب بھی نہیں آ رہا، مزید قرضوں کے بعد سانسیں رک جانے کا مرحلہ ہو گا، پس اب غیر ملکی دوروں اور بڑے بڑے قرضوں میں عوام کی دلچسپی نہیں رہی، بیچنے کیلئے نیا سودا کیا لایا جاتا ہے اس کا انتظار ہے، پرانا سودا، موٹر وے، ایٹم بم اور تھانہ کلچر میں تبدیلی تو کئی مرتبہ بک چکے، اب ان کا سحر باقی نہیں رہا کیونکہ اثاثے بیچے جا رہے ہیں، کچھ گروی پڑے ہیں، یہ سب کچھ بھی تو انہی کا کیا دھرا ہے جو اب پانچویں مرتبہ تقدیر بدلنے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ پنجاب کو اپنا ہوم گرائونڈ سمجھنے والوں کو انداز ہو چکا ہے کہ انہیں ہوم گرائونڈ میں اپنے ایمپائر کے ساتھ یہ سہولت میسر نہیں ہو گی کہ وہ بھاگتے دوڑتے ہوئے آئیں گے اور انہیں’’واک اوور‘‘ مل جائے گا۔ تحریک استحکام پاکستان کی پناہ میں کچھ ایسی شخصیات بھی آ گئی ہیں جو 9مئی کے واقعات میں ملوث تھیں، انہیں اشتہاری قرار دیا جا چکا تھا، پولیس انہیں ڈھونڈ نہ سکی، اب انہیں ایک نئے پرچم تلے قرار آ چکا ہے، یہی حالات رہے تو نیو تحریک انصاف کو وہ کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی جس کا خواب انہوں نے دیکھ رکھا ہے مزید براں اگر انہوں نے ن لیگ کی طرف جھکائو کیا تو وہ بھی مسترد کر دیئے جائیں گے۔ تحریک لبیک حسب سابق میدان میں اترے گی وہ خود تو شاید درجن بھر سیٹیں نہ جیت سکے لیکن درجن بھر امیدواروں کی شکست میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پیپلز پارٹی اگر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گئی تو سیاسی کھیل مزید دلچسپ ہو جائے گا، وہ ن کے اتحادی بننے اور مشترک حکومت بنانے کی بجائے صرف سندھ میں رہنا پسند کریں گے جبکہ ن لیگ چاہے گی کہ وہ اس کا وہ حال کر دے جو پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم حکومت میں ن لیگ کا کیا تھا، آصف زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے، اقتدار تو ان کی بھی ضرورت ہے، یہاں اقتدار کے بیماروں کا تو ہجوم ہے مگر انار ایک بھی نظر نہیں آتا البتہ انارکی نظر آ رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button