Column

میاں نوازشریف کی تقریر اور تجربہ

تحریر : روشن لعل
کچھ سینئر دوستوں کا کہنا ہے کہ باقی سب کچھ نظر انداز کر کے اس وقت دھیان صرف میاں نوازشریف کی 21اکتوبر کو کی گئی تقریر پر مرکوز ہونا چاہیے کیونکہ میاں صاحب کی مذکروہ تقریر روایتی ہونے کے باوجود بہت دلکش ہے۔ گو کہ اس تقریر میں نہ کوئی مرچ مصالحہ اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہے جسے نیا کہا جاسکے مگر اس کے باوجود اس وجہ سے دلکش کہی جارہی ہے کیونکہ اس میں جو کچھ کہا گیا وہ رجائیت پسند لوگ یہاں سننا چاہتے ہیں۔ اپنے دل میں انتہا درجے کی رجائیت کے باوجود میاں صاحب کی مبینہ دلکش تقریر سننے کے بعد بھی دماغ کوئی خوشنما خواب بننے کی طرف مائل نظر نہ ہو سکا۔ اگرچہ میاں صاحب کی باتیں سننے میں بہت مسحور کن ہیں مگر فیض کے اس مصرعے نے ان کا سارا سحر توڑ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا ، لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔ میاں نوازشریف کو سننے کے بعد نہ جانے کیوں نظر اس سیاسی کباڑ خانے کی طرف لوٹ گئی جس کے وسیع احاطے میں بکھری ہوئی گرد آلود حقیقتوں کے سامنے میاں صاحب کے لفظوں کی دلکشی ماند دکھائی دینے لگی ۔ اس سیاسی کباڑ خانی کے ایک کونے میں پڑی ہوئی جس حقیقت پر نظر ساکت ہو کر رہ گئی وہ کچھ اور نہیں بلکہ میاں نوازشریف کی ہی ایک پرانی تقریر تھی۔ یہ تقریر میاں نوازشریف نے 11مئی 2013ء کو اپنی کامیابی اور حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اس وقت کی تھی جب الیکشن 2013ء کے نتائج ابھی اس حد تک سامنے نہیں آئے تھے کہ مسلم لیگ ن کو کسی شک و شبہ کے بغیر فتح یاب اور حکومت بنانے کی حامل سمجھا جاسکے۔ الیکشن 2013ء کے نتائج کو جب عمران خان نے غیر شفاف قرار دیا تو سب سے پہلے یہی اعتراض اٹھایا تھا کہ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو انتخابی نتائج پوری طرح سامنے آنے سے پہلے ہی میاں نوازشریف کو اپنی جیت کا یقین کیسے ہو گیا۔ اسی تسلسل میں عمران نے یہ بھی کہا کہ جیت کا یقین نوازشریف کا اپنا نہیں بلکہ کسی اور کا دیا ہوا تھا۔ مئی 2013ء کی تقریر میں جب میاں نوازشریف نے اپنی جیت کا اعلان کیا اس وقت تک گو کہ اتنے انتخابی نتائج سامنے نہیں آئے تھے کہ مسلم لیگ ن کی جیت کو حتمی سمجھا جاسکے مگر جتنے بھی نتیجوں کا اعلان ہوا ان سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا تھا کہ عوام نے جس رجحان کے تحت ووٹ ڈالے اس سے کس کی جیت کا زیادہ امکان ہے۔ سامنے آنے والے انتخابی نتائج کے رجحان کے مطابق جیت کا سب سے زیادہ امکان مسلم لیگ ن کا ہی تھا مگر میاں نوازشریف نے جب قبل از وقت یہ امکان یقین کے طور پر بیان کیا تو ان کے مخالفوں نے ان کا یہ بیان الیکشن 2013ء کو دھاندلی زدہ قرار دینے کے لیے دلیل کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ مئی 2013ء میں جس وقت میاں نوازشریف نے تقریر کی اس وقت اگرچہ انتخابی عمل مکمل نہیں ہوا تھا مگر ووٹ ڈالنے کا عمل یقیناً مکمل ہو چکا تھا۔ میاں صاحب نے اپنی 11مئی 2013ء کی تقریر میں جو تاثر دیا تھا عین اسی قسم کا تاثر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آنے پر21اکتوبر 2023ء کو کی گئی تقریر کے دوران اس وقت دیا جب ووٹ ڈالنے یا انتخابی عمل مکمل ہونا تو دور کی بات ، ابھی انتخابی شیڈول کا اعلان بھی نہیں ہوا۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی حالیہ تقریر میں جو تاثر دیا وہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ آئندہ الیکشن چاہے جب بھی ہوں ان کے علاوہ کوئی دوسرا پاکستان کا وزیر اعظم نہیں بنے گا۔
ہمارے ملک کے ایک سینئر صحافی نے اپنے تازہ کالم میں بلاول جیسے نوجوان کو تو کسی کھاتے میں نہیں رکھا مگر آئندہ کئی دہائیوں تک شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے شہباز شریف ، مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اقتدار کی غلام گردشوں میں دوڑتا ہوا دکھا کر میاں نوازشریف کو خطے میں نریندر مودی، ایرانی قیادت اور حسینہ واجد سے بھی زیادہ تجربہ کار سیاستدان قرار دیا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپنی حالیہ تقریر میں خود کو ملک کا آئندہ یقینی وزیر اعظم ظاہر کرنے والے نوازشریف جب 33برس قبل پاکستان کے وزیر اعظم بنے، اس وقت خطے کے حالیہ حکمران سیاسی مدرسوں میں طفل مکتب تھے۔ جو لوگ 33برس قبل سیاست میں طفل مکتب تھے ان کا سیاسی تجربہ میاں نوازشریف کے ہم پلہ کیسے سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے تجربے کا کیا فائدہ جس سے کچھ سبق ہی نہ سیکھا گیا ہو۔ اگر میاں نوازشریف نے 11مئی 2013ء کی قبل از وقت کی گئی تقریر کی وجہ سے الیکشن کے دھاندلی زدہ قرار دیئے جانے سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو وہ 21اکتوبر2023ء کو ایسی تقریر ہر گز نہ کرتے جس سے لوگوں کو آئندہ الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہونے سے پہلے ہی اس کے چوری شدہ ہونے کا شک ہونے لگے۔
یہاں یہ یاد لانا ضروری ہے کہ میاں نوازشریف کی تقریر کو بنیاد بنا کر الیکشن 2013ء کو دھاندلی زدہ قرار دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ براستہ ڈان لیکس اور پانامہ لیکس پہلے جولائی 2017ء میں ان کی نااہلی اور پھر وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر منتج ہوا تھا۔ میاں نوازشریف جولائی 2017ء میں پہلی مرتبہ نااہل نہیں ہوئے بلکہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ نااہل ہونے کا تجربہ حاصل کر چکے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس قسم کے عاملوں نے ہر بار میاں نوازشریف کو نااہل قرار دلوانے میں کردار ادا کیا عین اسی قسم کے عامل ہر مرتبہ انہیں اہل بنانے میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے نظر آئے۔ میاں صاحب پر عائد الزامات کی صحت چاہے جو بھی تھی مگر نہ تو ان پر لگائے گئے الزامات درست ثابت کرنے کے لیے کی گئی کاروائی کبھی شفاف نظر آئی اور نہ ہی یہ الزامات ثابت کیے جانے کے باوجود انہیں بری قرار دینے کا عمل کبھی منصفانہ دکھائی دیا۔ جن راستوں پر چل کر میاں نوازشریف نے قبل ازیں نااہل ہونے سے اہل بننے کا سفر طے کیا دوبارہ عین اسی راستے کا مسافر بننے پران کا اہل ہونا اب بھی یقینی نظر آرہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو راستہ میاں نواز شریف نے پہلے طے کرنے کی بعد اب بھی اختیار کیا ہوا ہے، ان کے بد ترین سیاسی مخالف عمران خان بھی اسی راستے کے مسافر لگ رہے ہیں۔ دو متوازی سڑکوں پر مشتمل اس راستے کو استعمال کرنے کا دونوں کا فرق یہ ہے کہ جب ایک آرہا ہو تو ساتھ والی سڑک پر دوسرے کی واپسی کا سفر شروع کرا دیا جاتا ہے۔ کوئی خود کو چاہے جتنا بھی تجربہ کار سمجھے یا اس کے حواری اسے جتنا بھی تجربہ کار قرار دیں یہاں عام لوگوں کا اپنے تجربات کی روشنی میں یہ خیال ہے کہ جس راستے پر میاں نوازشریف عازم سفر ہیں اس پر چلتے ہوئے وہ مقاصد حاصل کرنا نہ پہلے ممکن تھا اور نہ اب ممکن ہے جو مقاصد خود کو آئندہ کا یقینی وزیر اعظم سمجھ کر انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیے۔

جواب دیں

Back to top button