Column

اسرائیل اور سیاسی نہر

تحریر : رضوان بن زید
آج جو اسرائیل اور فرانس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے ایک دن یا ایک سال کا عرصہ نہیں بلکہ تاریخ کا مکمل دیوان موجود ہے۔ میرے خیال میں یہ بین الاقوامی سطح پر مختلف اداروں کی حیثیت بدل جانا آج کا معاملہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے تاریخ نے ایک بہت بڑا واقعہ اپنے اوراق میں نقش کیا ہے اور آج اسی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
معزز قارئینِ کرام! یہ اس دور کی بات ہے جب یہ فقرہ A land without people for the people without a landیورپ کےintellectualطبقے میں زور و شور سے گونج رہا تھا۔ پھر اسی دور میں یہودیوں کے ساتھ جرمنی کے انتہائی غیر انسانی سلوک نے ساٹھ لاکھ انسانوں کو سرعام قتل کر دیا اور نسل پرستی کی آگ کو بجھانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے نتیجے میں Zionismوجود میں آیا جس کو آج ہم اچھا تصور نہیں کرتے۔ اس نے کوشش کرکے عالمی طاقتوں سے اپنی promised landپر وطن بنانے کی کامیاب سہی کی، جس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا۔
اس کے چند سال بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب دنیا میں نظریات کی بنیاد پر چلنے والی طاقتیں اپنے مفاد میں نظریات کو پیچھے چھوڑتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ یہ 1950ء کے عشرے کی بات ہے کہ جب مصر، برطانیہ اور فرانس نے مل کر Suez canal بنائی اور اپنی لاگت کے مطابق شئیرز بانٹ لیے۔ بیرونی قرضوں کی انتہائی زیادتی کی وجہ سے عوام کی طرف سے دبا آنے لگا تو محمد علی پاشا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے شیر بھیج دیں۔ برطانیہ نے یہ شئیرز چار ملین پائونڈ میں خرید لیے۔ پھر مصر اپنے ہی ملک میں اپنی اثاثے سے محروم ہو چکا تھا۔
دوسری طرف برطانیہ کے شیئرز چوتالیس فیصد ہو گئے تھے۔ مصر کے عوام نے اس محرومی پر بہت بڑے بڑے احتجاج کئے، متعدد بغاوتیں ہوئیں لیکن برطانیہ نے کچل دیں۔ جو وہاں پر اپنی فوجوں کے ساتھ موجود تھا اب اور مصر کو اپنے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کر رہا تھا ۔ جو کہ دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہوا۔ مصر نے 1948ء میں جب چھ ملکوں کے ساتھ مل کر اسرائیل پر حملہ کیا تو شکست کھانی پڑی۔ جس کے نتیجہ میں مصر کی فوج میں ایک نئی تنظیم جس کا نام Free officers movementتھا نے جنم لیا اور اس کا سربراہ جمال عبدالناصر اور جنرل مجیب تھے۔ اسی دور میں وفد پارٹی کے اختلافات بادشاہ سے بہت سنگین شکل اختیار کر گئے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد آفیسر تحریک کے مارشل لاء لگانے میں امکانات نظر آنے لگے جو کہ بعد میں لگا دیا گیا۔ مجیب ، جو کہ مصر کی upper class سے تھے، نے مارشل لاء کا عہدہ سنبھالا اور جمال عبدالناصر اس کے ماتحت بن کر سامنے کام کرنے لگے۔ ناصر کی سوچ تھی کہ ملک میں غربت اور نظام کی کمزوری کی واحد وجہ جاگیرداری ہیاور اگر نظام کو مضبوط کرنا ہے تو اس جاگیرداری کو ختم کرنا پڑے گا اگر یہ نہ کیا گیا تو لوگ بدلنے کا فائدہ نہیں۔ اس لیے ناصر نے جنرل مجیب سے مشورہ کئے بغیر زمینی اصلاحات کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں جنرل مجیب سے اختلافات پیدا ہوئے کیونکہ جنرل مجیب سمجھتے تھے کہ جاگیر داری نظام سے ملک کی بدحالی کا لینا دینا نہیں ہے اور وہ خود بھی اسی جاگیردار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ لہذا جب اختلافات شدید نوعیت کے ہوئے تو ناصر نے جنرل مجیب کو عہدے سے ہٹا دیا اور خود باقاعدہ طورپر عہدہ سنبھال لیا۔
اب جمال عبدالناصر نے آتے ہی اسرائیل کے خلاف حکمت عملی بنانا شروع کر دی۔ جس کے تحت وہ اسرائیل پر فدائی حملہ کروانے لگا اور دوسری طرف فرانس اسرائیل کو ہتھیار بیچنے لگا۔ کہ وہ مصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور ناصر کی ساکھ کو، جو کہ اسرائیل کے خلاف عوامی حمایت کا حامل تھا، نقصان پہنچائے، اس وقت پورا یورپ ناصر کے خلاف تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے bendong Cityمیں ایک کانفرنس رکھی جس میں کئی ممالک شامل ہوئے اس قدم کو امریکہ نے اپنے خلاف اورUSSR کے حق میں تصور کرتے ہوئے ایک معاہدہ کرایا جسے معاہدہ بغداد کہتے ہیں اور اس میں اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان اس معاہدے میں شامل تھا۔ اسرائیل کے خلاف فدائی محاذ میں استعمال ہونے والا اسلحہ چیکو سلواکیہ سے خریدا جاتا تھا ۔ امریکہ نے مصر کو دھمکی دی کہ مصر کو ’’ آسوان ڈیم‘‘ کیلئے فراہم کی جانے والی امداد بند کر دے گا اگر اسرائیل کے خلاف فدائی محاذ بند نہ کیا گیا۔ امریکہ کی دھمکی پر جمال عبدالناصر نے جواب دیا کہ اگر ’’ آسوان ڈیم‘‘ پر مصر کی امداد روکی گئی تو مصر Suez canalکو قومی دھارے میں لے کر اسے حاصل ہونے والی رقم پر ڈیم بنائے گا اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ناصر کا یہ جواب بین الاقوامی سیاست کو بدلنے کے لیے کافی تھا۔ اب ایک طرف فرانس اور برطانیہ جن کا حق نہر سویز تھا اور دوسری طرف انہی کی کالونی بن کر رہنے والا امریکہ اور درمیان میں مصر تھا۔
ناصر کی اس بات سے مسلم دنیا میں بہت زیادہ پذیرائی ہوئی اور عام عوام اس کو اپنا نجات دہندہ تصور کرنے لگے۔ پاکستان، جو کہ معاہدہ بغداد میں حصہ لے کر مصر کے خلاف اپنا قدم رکھ چکا تھا، اس کے عوام نے اس کے خلاف اور ناصر کے حق میں بہت بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ریکارڈ کرائے۔ حیرت انگیز طور پر برطانیہ کے عوام نے بھی بہت بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ریکارڈ کرائے اور ثابت کیا کہ وہ مصر کے حق میں ہیں اور برطانوی حکومت کی جنگی پالیسی کے انتہائی خلاف ہیں۔ سلامتی کونسل کی میٹنگ میں بھی یہی کہا گیا کہ Suez canalکا معاہدہ colonial period میں ہوا تھا اور اس کو سو سال سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ لہذا اس پر مصر کا ہی حق ہے، عالمی حمایت بھی اس وقت مصر کے حق میں تھی۔ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ کی حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے ایک خفیہ مشن تشکیل دیا۔
اس کے تحت دونوں ملکوں کی افواج نے مل کر رات کے اندھیرے میں نہر پر قبضہ کرلیا، اس طرح محدود جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اس موقع پر جمال عبدالناصر کا جملہ جس نے تاریخ کے اوراق کو کبھی بھی ماضی ہونے ہی نہ دیا اور اب بھی عرب لوگوں کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے، کہ اے فرعون کی قوم اٹھ جائو، تم کو موسیٰ کی قوم نے للکارا ہے۔ اس طرح ناصر نے عام عوام کو بھی جنگ میں شامل کر لیا۔
بین الاقوامی سطح پر امریکہ جو کہ مصر کے ساتھ بہرحال تو نہیں تھا لیکن وہ برطانیہ کے ساتھ بھی نہیں تھا، اس نے اپنی بین الاقوامی ساکھ بچانے کے لیے دونوں ملکوں کے لیے لندن میں ایک میٹنگ بلائی۔ اس میٹنگ میں 22ممالک نے شرکت کی۔ آج مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان جس کو اسلامی ملک کہتے ہیں اس نے برطانیہ کا اور فرانس کا ساتھ دیا جبکہ جسے ہم مسلمانوں کا قاتل ( بھارت) کہتے ہیں، اس نے مسلمانوں کا، یعنی کے مصر کا ساتھ دیا اور وہ میٹنگ کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوگئی اور اس کے بعد USSRنے دھمکی دی کہ اگر برطانوی اور فرانسیسی حکومت نے جنگ بند نہ کی تو ان کے شہروں پر راکٹ حملے کئے جائیں گے۔ اس وقت USSRمیں جو حکومت تھی وہ سٹالن کی طرح ٹھنڈے مزاج کی بالکل نہ تھی۔ اس لیے بات چیت کا موقع نہ ہونے کی وجہ سے جنگ بند ہوگئی۔ برطانیہ اور فرانس نے اپنی افواج واپس بلا لیں، لیکن اسرائیل نے سینائی کے خطے میں مسلسل قبضہ جمائے رکھا اور اسے بعد میں bargaining chip کے طور پر استعمال کیا جس کے تحت پھر اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا اور سینائی کا خطہ واپس کر دیا گیا۔
اس معاہدے سے اسرائیل نے ایک حکمت عملی بنائی کہ کسی جگہ پر قبضہ کر کے بعد میں اس جگہ کو bargaining chip کے طور پر امن معاہدے کے لئے استعمال کیا جائے اور اقوام متحدہ پر زیادہ توجہ نہ دی جائے۔ اس طرح جب نہر سوئز مصر کے ہاتھ میں ہی رہی تو مصر کی حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ پوری مسلم دنیا میں ایک خوشی کی لہر پھیل گئی، لیکن مصر کی حکومت اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ پر اعتماد نظر آنے لگی جس کا اثر بعد میں اسی مصر کی تباہی کا موجب بنا۔
اس واقعہ نے جو اثرات اپنے رونما ہونے کے دوران بین الاقوامی سیاست پر مرتب کیے تھے اس سے کہیں مختلف اور گہرے اثرات اس کے بعد مرتب ہوئے۔ پہلا اثر تو یہ ہوا کہ برطانیہ نے اپنی وسعت پسندانہ خواہش کو ترک کرکے اپنی اوقات میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تو دوسری طرف فرانس نے اس شکست کے بعد ایٹم بم بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ جبکہ عرب دنیا میں Nasirismکی اصطلاح جنم لے چکی تھی اور USSRکے ساتھ تمام اسلامی ممالک خصوصا عرب ممالک ایک بہت ہی اچھے انداز کے ساتھ مل چکے تھے۔ ان اسلامی ممالک میں پاکستان کی حکومت شامل نہ تھی، امریکہ کی حیثیت غیر جانبدار ہونے کی وجہ سے اور زیادہ کمزور ہو گئی۔
جب امریکہ نے نہر سوئز کے معاملات کو دوبارہ پرکھا کیا تو ایک اصطلاح جسے Eisenhower doctrineکہتے ہیں، وجود میں آئی۔ اس کے مطابق امریکہ نے دوبارہ سے اسرائیل کا ساتھ دینا شروع کیا اور عرب ملکوں میں سے شاہ سعود کے قبیلے کی پشت پناہی شروع کر دی تاکہ سارے اسلامی ممالک، جو جمال عبدالناصر کے پیچھے پیچھے USSR کے ساتھ مل گئے ہیں، کوUSSR سے توڑنے کی کوشش کرنا تاکہ کمیونزم کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔ جو کہ نہر سوئز کے نتیجے میں پھیلتا ہی جا رہا تھا۔ اس لئے جب دوبارہ مصر اور اسرائیل کی جنگ ہوئی تو امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دے کر ناصر کے جمود کو بہت حد تک توڑنے میں کامیابی حاصل کی۔
تاہم مصر نے یہ جنگ جیت کر برٹش اور فرانس کے اثاثوں پر قبضہ کر لیا اور قومی دھارے میں لے لیا۔ اس میں طبی ادویات فاسفورس اور تمباکو کی بہت بڑی بڑی فیکٹریاں شامل تھیں۔ اس کے بعد پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تھوڑی سی لچک دکھاتے ہوئے مصر کو اپنی priority listمیں شامل کرلیا۔

جواب دیں

Back to top button