تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

کیا جانور بھی گالیاں بکتے ہیں ؟ حیران کن معلومات

گزشتہ دنوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو میں محو تھا کہ ایک دوست نے اپنے ماضی کا ایک قصہ سناتے ہوئے گالیاں بکنا شروع کردیں ۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک جانور تھا ۔ تو میرے دماغ میں ایک سوال نے جنم لیا کہ کیا جانور بھی گالیاں بکتے ہیں ؟
اس سوال کی کھوج میں مجھے ڈاکٹر برن سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر برن وضاحت کرتی ہیں کہ ‘ہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ گالی کیا ہے اور اس اتفاق رائے کا تعلق بہت حد تک اس بات سے ہوتا ہے کہ کسی خاص ثقافت میں کونسی باتیں منع ہیں۔ بعض ثقافتوں میں جسم کے اعضا کے ذکر سے جذبات مجروح ہوتے ہیں، بعض جگہ جانوروں کے نام سے، بعض جگہ بیماریوں کے ذکر سے اور بعض کا تعلق کسی جسمانی فعل سے ہوتا ہے۔

’مگر گالی گلوچ کا ایک بنیادی عنصر ہے: جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس معاشرے میں پائی جانے والے ممنوعات کو کام میں لائیں۔‘

ڈاکٹر برن کہتی ہیں کہ ’یہ زبان کی وہ قسم ہے جو آپ خاص مواقع پر استعمال نہیں کریں گے، جیسا کہ جاب انٹرویو، یا اپنے ممکنہ ساس سسر سے ہونے والی پہلی ملاقات کے دوران۔

ڈاکٹر ایما برن کہتی کہ چمپنزی یا افریقی بن مانسوں پر بہت سی تحقیق ہوئی ہے جس کے لیے ان کی ایک ساتھ پرورش کی گئی تاکہ وہ ایک بڑے خاندان کی شکل میں رہ سکیں۔

ڈاکٹر برن کہتی ہیں کہ ’پرائمیٹ یا بندروں کے امریکی ماہرین ڈیبرا اور راجر فُٹس نے ان چیمپنزیوں کے سامنے اشاروں کی زبان میں بات کی۔ اور انھیں ہر چیز کے اشارے سکھائے۔‘

جنگل میں تو چیمپنزی ایک دوسرے پر اپنا پاخانہ پھینک کر بات کرتے ہیں، مگر ان ماہرین نے انھیں اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے انھیں پوٹی ٹریننگ دی۔

برن کا کہنا ہے کہ ’جب یہ بن مانس اس تربیت کے عادی ہوگئے تو انھوں نے فضلہ پھینکنے کے اظہار کے لیے اشاروں کی زبان استعمال کی، بالکل ویسے ہی جیسا کہ انگریزی بولنے والے اپنی آنتوں کی حرکت الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

’وہ (چیمپنزی) ان اشاروں کو اپنے غصّے، مایوسی اور احتجاج کے اظہار کے لیے، اور دوسرے بن مانسوں کو ’ڈرٹی منکی‘ یعنی گندا بندر کہنے کے لیے، جو کہ ان کے لیے بہت بری گالی ہے، استعمال کرنے لگے۔‘

نہ صرف یہ بلکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ’وہ پاخانے کے بارے میں لطیفے بنانے کے لیے بھی اشاروں میں بات کرنے لگے۔‘

برن کہتی ہیں کہ ’راجر اور ڈیبرا فُٹس ایک دن تجربہ گاہ سے گزر رہے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ یہ چیمپنزی اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنی ٹھوڑیوں کو اتنی زور سے پیٹ (کسی کو گندا کہنے کا اشارہ) رہے تھے کہ ان کے دانت آپس میں بجنے لگے۔‘

تو بجائے ایک دوسرے پر فضلہ اچھالنے کے ان بن مانسوں نے فضلہ اچھالنے کا اشارہ سیکھ لیا تھا اور وہ اسے استعمال کر رہے تھے۔

ڈاکٹر برن کا کہنا ہے کہ ’اپنی کتاب کے لیے میری تحقیق کا سب سے دلچسپ پہلو غالباً یہ ہی تھا کہ جیسے ہی آپ اخلاقی لحاظ سے ممنوع باتوں کے اظہار کا طریقہ سیکھے لیتے ہیں تو اسی نقطے سے گالیاں جنم لے سکتی ہیں

جواب دیں

Back to top button