
جب سے نواز شریف نے وطن واپسی کی ہے سیاسی طور پر وہ ہی ہر میڈیائی بحث کا موضوع ہیں۔ پہلے انکے آنے کے بارے میں چہ مگوئیاں جو پیش گوئیوں میں تبدیل ہوتی ہوئیں خبروں میں تبدیل ہوئیں اور اب انکے وزیر اعظم بننے کے حوالے سے دعوے میڈیا میں ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں۔ اب ملک کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے تازہ ترین کالم میں نواز شریف کی چوتھی بار وزیر اعظم تاجپوشی کے حوالے سے نقشہ کھینچا ہے اور خاندان شریف کے حوالے سے ایک نیا دعویٰ کیا ہے۔ اور ساتھی ہی ساتھ نئے خدشات بھی بیان کئے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ کیا مقتدرہ کو نئے وزیر اعظم کی بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں۔ اگر مقتدرہ نے معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی خود چلانی ہے تو پھر وہ اقتدار لیکر کیا کرے گا ؟وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے اس لئے اس کے لئے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بیکار ہوگا۔ دوسری طرف مقتدرہ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کئے بیٹھی ہے، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ یہی وجہ ہے کہ نئی بحث یہ اٹھائی گئی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیر اعظم نہ بنے بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو ہی دوبارہ وزیر اعظم بنائے کیونکہ وہ مقتدرہ کے ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ خاندانی طور پر پہلے سے طے ہوچکا ہے، جس کے مطابق نونیوں کے وزیراعظم کے امیدوار نواز شریف ہونگے الیکشن جیتے تو وہ وزیر اعظم بنیں گے تاہم وہ اپنی ٹرم مکمل نہیں کریں گے سال دو سال بعد وہ اپنے بھائی کو اپنی جگہ لے آئیں گے اور خود حکومت سے باہربیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں گے۔
اگلی سیاست میں ان کی نمائندہ مریم ہونگی، مریم کی خواہش وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی ہے مگر اب تک جو معاملات نظر آ رہے ہیں اس میں انکی یہ خواہش الیکشن کے فوراً بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی، اس خاندان کو دوبارہ اقتدار ملے تو اوپر اور نیچے دونوں بڑی سیٹوں پر خود کو رکھنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔
بہتر ہوگا کہ مریم کو موقع ملے تو وہ بلاول کی طرح ابھی کسی وزارت یا مشاورت کے ذریعے گورننس کا مزید تجربہ حاصل کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کہاں اکاموڈیٹ ہونگے؟ لگتا ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہے کہ شہباز اور حمزہ کو جگہ دینی ہے اسی لئے مینار پاکستان کے سٹیج پر مریم کے بعد اسکی توجہ کا سب سے بڑا مرکز شہباز شریف اور حمزہ رہے ۔







