سیاست میں مذہبی ٹچ

رفیع صحرائی
سیاست میں مذہب کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ پچاس سال پہلے اپنے بچپن میں سنا اور پڑھا ہوا جماعت اسلامی کا سیاسی نعرہ مجھے آج تک یاد ہے۔
’’ جے چاہویں نبی گرمی نوں۔
دے ووٹ جماعت اسلامی نوں‘‘
گویا نبیؐ سے محبت کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے جماعت اسلامی کو ووٹ دینا ضروری ٹھہرایا گیا تھا۔ مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر اپنے منشور اور سلوگنز کو مذہبی ٹچ دے کر اپنے پیروکاروں اور ارکان کے جذبات کا خوب استعمال اور استحصال کرتی ہیں۔
عمران خان نے بھی اپنی تقاریر میں مذہبی ٹچ کو لازمی جزو کے طور پر شامل رکھا۔ وہ لوگوں کے مذہبی جذبات سے خوب کھیلتے اور ان جذبات کا کھلواڑ کرتے۔ اگر اپنی تقریر کے دوران وہ مذہب کا تڑکا لگانا بھول جاتے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قاسم سوری جیسے خوشامدی لیڈر ان کے کان میں یاد دہانی کرواتے کہ مذہبی ٹچ تو رہ گیا ہے۔ اپنی تقریر میں حضور ٔ کی کوئی مثال دیں اور پھر عمران خان جلسے میں خود کو عاشقِ رسول ڈکلیئر کر دیتے۔ یاد رہے کہ ایسے ہی ایک موقع پر عمران خان نے جوشِ خطابت میں اپنے جلسے میں شرکت کو عمرہ سے افضل قرار دے دیا تھا۔ یہ بھی سبھی کو یاد ہو گا کہ موصوف نے یہ دعویٰ بھی کردیا تھا کہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ پیغمبروں کو تیار کرتا تھا اسی طرح انہیں بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ وہ 2015ء سے بار بار ریاستِ مدینہ کا ذکر کر کے مذہبی کارڈ کھیلتے رہے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کے مخالفین کو ووٹ دینا شرک ہے۔ جبکہ ایک جلسے میں اپنے جوشیلے خطاب کے دوران انہوں نے نواز شریف کو ووٹ دینا اللّٰہ کے فرمان کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کے دوران جب فوج نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے برملا کہہ دیا کہ اگر فوج نیوٹرل رہی تو آخرت میں جواب دہ ہو گی۔ الغرض عمران خان شاید کسی سیاسی پارٹی کے واحد سربراہ ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کے لیے مذہب کا بے تحاشہ اور بے دریغ استعمال کیا۔
سیاست میں مذہبی ٹچ کی تازہ ترین مثالیں پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف کی پاکستان آمد کے موقع پر دیکھنے میں آئی ہیں جب مسلم لیگ ن کے وفاداروں نے اس بھونڈے انداز میں مذہب کا استعمال کیا کہ نہ صرف ساری حدیں عبور کر گئے بلکہ اپنی باتوں سے توہینِ مذہب تک پہنچ گئے۔
اسدالرحمان سابق ایم این اے ہیں۔ یہ پاکستان کے ایک مشہور و معروف چیف جسٹس خلیل الرحمان رمدے کے بھائی ہیں۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر ایسا عجیب و غریب سرٹیفکیٹ میٹنگ کے شرکا ء میں تقسیم کر دیا جو اس سے قبل کسی صحابی، خلیفہ راشد یا کسی مذہبی پیشوا نے بھی تقسیم نہیں کیا تھا۔ موصوف غالباً میاں نواز شریف کے استقبالیہ جلسے میں شرکت کے حوالے سے منعقدہ میٹنگ میں خطاب فرما رہے تھے۔ جوشِ خطابت میں فرما گئے کہ ’’ میں سرٹیفکیٹ دیتا ہوں کہ جو یہاں آ گئے ہیں وہ تو جنت میں جائیں گے ہی، لیکن 21کو جو لوگ لاہور جائیں گے وہ بھی ان شاء اللہ سیدھے جنت میں جائیں گے‘‘۔ اب اس کے بعد بندہ کہے تو کیا کہے۔ اتنی بڑی بات کہنا پاکستان میں ہی شاید ممکن ہے۔ ہم میں سے اکثر پاکستانی تو ویسے ہی عملی عبادات اور فرائض سے دور بھاگنے والے، موبائل فون کا بٹن دبا کر 20 میسیجز شیئر کر کے جنت میں جانے کے مدعی ہیں۔ یا پھر قیامت کے روز اپنے مرشد کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر جنت میں جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں ایسے میں ایک سیاسی رہنما جو کہ سیّد بھی ہیں جنت کا ٹکٹ بانٹ رہے ہوں تو لوگ کیسے یقین نہیں کریں گے۔
ابھی اسدالرحمان کی تقریر کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ ن علما ء و مشائخ ونگ کے صدر سیّد محمد عمران شاہ نے اپنے ویڈیو بیان میں نوید سنا دی کہ ’’ جنت کا تو پتا نہیں لیکن 21اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر 4بجے پہنچنا عین کارِ ثواب ہے۔ یہ ہمارا ملی، دینی، اسلامی، اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم قائدِ پاکستان، محسنِ پاکستان کا استقبال کریں‘‘۔ اب اگر کوئی بھی پڑھا لکھا پاکستانی ان سے اس بات کا ثبوت مانگ لے کہ میاں نواز شریف کا استقبال اسلامی اور دینی فریضہ کیسے ہو گیا اور اس کے کارِ ثواب ہونے کا کیا ثبوت ہے تو عذرِ گناہ بدتر از گناہ کے مصداق وہ ایسی تاویلیں پیش کریں گے کہ عقل چکرا جائے گی۔ لیکن سو باتوں کی ایک بات یہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی و وفاداری کا اظہار اور حقِ نمک ادا کر رہے تھے۔
ایسی باتیں کرنے میں اسدالرحمان یا سیّد محمد عمران شاہ کا گناہ نہیں، اصل قصور ہماری جہالت کا ہے۔ ہم نے اپنی نمازیں مولوی صاحبان پر اور جنت پیر صاحبان پر چھوڑی ہوئی ہے۔ دین کا کسی کو پتا ہی نہیں۔ دینی تعلیمات سے دوری کا یہ عالم ہے کہ کسی خاص مہینے کی مبارک باد دے کر خود کو جنت کا حق دار سمجھنے لگتے ہیں۔ اوپر سے سیاسی مداریوں نے اپنی گھٹیا سیاست کو چمکانے کے لیے دین کا بے تحاشہ استعمال کر کے لوگوں کی جہالت سے کھیلنا اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔





